ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
مقصد اِس عالمِ انسانی میں حکومت کا قائم کرنا، بادشاہت کا حاصل کرنا، دُنیاوی رعب وداب کا پیدا کرنا، خزانوں کا جمع کرنا، دوسری قوموں اور ملکوں کو غلام بنانا، قوموں کی تجارت زراعت صنعت و حرفت پر قبضہ جمانا وغیرہ وغیرہ نہ تھا بلکہ ایسا مقدس اور برتر مقصد تھا کہ جس سے عالمِ انسانی اور تمام مبعوثِ الیہم ١ کی دینی اور دُنیاوی اصلاح ہوجائے، اُن کی روحانی اور جسمانی بیماریاں دور ہوجائیں، اُن کے لیے دونوں جہان کی ترقیاں اور راحتیں بہم پہنچ جائیں وہ ہر دو تعلقات ٢ میں پورے پورے مکمل بن جائیں اُن کی ہر قسم کی کمزوریاں اور تکلیفیں دور ہوجائیں ،اُن کی یہ زندگانی اور مستقبل کی زندگانی ٣ نہایت راست وآرام کی ہوجائے اُن کے لیے وہ کمالات ِ روحانیہ و جسمانیہ جن کی بنا پر وہ نعمت ِخلافتِ عظمیٰ سے تکریم کیا گیا ہے حسب ِاستعداد حاصل ہوجائیں، اِس لیے اُس آفتاب ِ ہدایت (علیہ الصلٰوة والسلام) نے ایسے ایسے وسائل و ذرائع لو گوں کی اصلاح وتفہیم کے لیے اختیار کیے جن میں سراسر شفقت و رحمت، ہمدردی و غمخواری، حلم و تحمل ،استقلال و ہمت، صبرو احسان وغیرہ مربیانہ اور حکیمانہ اخلاق بھرے ہوئے تھے۔اتباعِ رسول ۖ : وہ محض تبلیغ کے لیے پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ انسان جو کہ طبعی طورپر مقلد واقع ہوا ہے اُس کو اور اُس کے کارناموں کو بغور دیکھے اور اپنے آپ کو بھی اُسی رنگ و رُوپ میں رنگ لے گویا کہ وہ ایک نمونہ ہے جس کی صورت و سیرت پر بن جانا مالک ِ حقیقی عز شانہ کی طرف سے طلب کیا جاتا ہے( قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْر رَّحِیْم )(سُورة الِ عمران : ٣١ ) ''اے محمد ( ۖ) اِن لو گوں سے کہہ دو کہ اگر تم کو خدا کی محبت ہے تو میرے پیچھے چلو (یعنی میرے جیسے بن جاؤ) خدا تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔ '' ١ جن جن اُمتوں کی طرف انبیاء بھیجے گئے علیہم السلام ۔ ٢ یعنی تعلقِ خَلق باخالق اور تعلقِ خَلق باخَلق۔ ٣ جو کہ اِس دارِ فانی کی مفارقت کے بعد شروع ہونے والی ہے۔