ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
جاہلی معاشرہ میں اِس طرح کے باطل نظریات اور توہمات عقیدہ کی شکل اختیار کر چکے تھے اور شرک کا چور دروازہ بند کرنے کے لیے اِن توہمات سے معاشرہ کوپاک کرنا ضروری تھا کیونکہ کسی چیز کو نفع یانقصان میں براہِ راست مؤثر سمجھنا شرک ہے اس لیے کہ مؤثر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے اس وجہ سے رحمت ِعالم ۖ نے اپنے اِرشادات میں اس طرح کے باطل نظریات اور بے بنیاد توہمات کی کھل کر نفی فرمائی اور ساتھ ہی انسانی معاشرہ کو کامیاب زندگی کی راہوں میں صالح عقیدہ کی روشنی بھی بخشی، آپ نے عقیدہ ٔ تو حید کو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں ایسا راسخ کر دیا کہ پھروہ اِس قسم کے تصورات اور توہمات کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔دورِ فاروقی کاایک عجیب واقعہ : اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ جب مصر کا علاقہ فتح ہوا تو اُس کی معیشت کا مدار بڑی حدتک دریائے نیل پر تھا، یہاں کے لو گوں کا معمول تھاکہ جب دریا خشک ہوجاتا تو ایک کنواری لڑکی کودُلہن بنا کر دریا کے بیچ میں ڈال دیا جاتا، دریا کی بلا خیز موجیں اُٹھتیں اور اُسے بہا کر موت کی نیند سلادیتیں، جب مصر خلافت ِاسلامیہ کے زیر رنگیں آنے کے بعد دریا خشک ہوا اور گورنر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اِس رسمِ بد کی اطلاع ملی تواِس موحد نے اِس وہم اور رسمِ بد کا انکار کردیامگر لو گوں کا یہ عقیدہ بن گیا تھا اس لیے اصلاح کی غرض سے سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو صورتِ حال لکھ دی اور مشورہ طلب کیا، جواباً آپ نے ایک تحریر دریائے نیل کے نام لکھ کر ہدایت دی کہ اِسے دریائے نیل میں ڈال دیا جائے جس میں آپ نے دریائے نیل کو مخاطب کر تے ہوئے لکھا تھا : '' اے دریا ! اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہے (جیسا کہ ہمارا ایمان ہے) تومیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے جاری رکھے اور اگر تواللہ تعالیٰ کے حکم سے نہیں بلکہ کنواری لڑکی کے بھینٹ دینے سے جاری ہے جیسا کہ یہاں کے توہم پرست لوگوں کا عقیدہ ہے تو پھر ہمیں تیری کوئی ضرورت نہیں، ہماری ضرورت کاانتظام