ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
متعدد مستند اور صحیح حدیثوں میں تر دید فرمائی ہے،اِس کے باوجود کمزور عقیدہ کے لوگ اب بھی ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں بلکہ آسمان سے بلائیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھتے ہیں، اسی وجہ سے اس میں شادی وغیرہ کوئی خوشی کا کام نہیں کیا جاتا حتی کہ اِس میں بچہ کی ولادت کوبھی پریشانیوں کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے بالخصوص صفر کی تیرہ تاریخ کو ''تیرہ تیزی'' اور'' آخری بدھ'' کو منحوس دن تصور کیا جاتا ہے ۔ یاد رکھو ! ماہِ صفر کے متعلق جو کچھ توہمات ہیں اُن کی بنیاد پہلے بھی جہالت پر تھی اور آج بھی جہالت ہی پر ہے جہلاء کے یہاں یہ صفر صِفر سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں صفر بھی ''ماہِ ظفر ''سمجھا جاتا ہےماہِ صفر سے متعلق پیش کی جانے والی روایت کا تحقیقی جائزہ : رہی بات اُس روایت کی جس میں یہ کہا گیا کہ مَنْ بَشَّرَنِیْ بِخُرُوْجِ صَفَرَ بَشَّرْتُہ بِالْجَنَّةِ ''جو مجھے ماہِ صفر کے ختم ہونے کی بشارت دے میں اُسے جنت کی بشارت دوں گا'' اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض لو گوں نے صفر کے نحوست والا ہونے کو ثابت کیا ہے۔ تو اِس بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، ملا علی قاری نے اِسے ''الموضوعات الکبری'' ص ٦٩ میں بے اصل قرار دیا ہے لہٰذا اِس سے ماہِ صفر کے منحوس ہونے پر استدلال کرناجہالت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس موضوع روایت کے مقابلہ میں بہت سی صحیح اور معتبر روایتیں ایسی ہیں جو صفر کے منحوس اور نامبارک ہونے کی نفی کرتی ہیں اس لیے بھی صحیح روایت کے مقابلہ میں موضوع روایت کوپیش کرنا غلط اور اصول کے خلاف ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اس مو ضوع روایت سے بذاتِ خود صفرکا منحوس ہونا کہیں ثابت نہیں ہوتا یہ صرف جہلاء کااختراع اور خیال ہے، لیکن اگر موضوع ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے اِس کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے تب بھی اس کا مطلب وہ نہیں جو صفر کے منحوس ہونے کے بارے میں مراد لیا جاتا ہے بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ حضور اکرم ۖ کا وصال ربیع الاوّل میں ہونے والا تھا اور آپ وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے مشتاق تھے جس کی وجہ سے آپ کو صفر کے ختم ہونے اور