ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
اگر ایمان میں خامی اور یقین میں کمزوری ہوتو اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی بہت سی بے بنیاد باتوں اور توہمات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ماہِ صفر کے توہمات کی نفی قرآن و حدیث میں : چنانچہ دیکھئے ! اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں عقیدہ ٔ تو حید سے محروم ہونے کہ وجہ سے لو گ قسم قسم کے توہمات اور خرافات میں مبتلا تھے مثلاً سفر میں جانے سے قبل پرندے کواُڑایا جاتا اگر وہ دائیں جانب اُڑتا تو اِسے نیک فال تصور کرتے اور سفر کرتے لیکن اگر بائیں طرف اُڑتا تو بد فالی لیتے اور سفر سے گریز کرتے، اسی طرح اُلو کو منحوس پرندہ خیال کرتے وہ بے چارہ بے زبان جب کسی کے مکان پر بیٹھ جاتا تو سمجھتے کہ یہ گھر اُجڑ جائے گا نیز اسلامی سال کا جو دُوسرا مہینہ ہے ''صفر'' اسے ناکامی کا پیش خیمہ سمجھا جاتا تھا اُن کا خیال تھاکہ اِس ماہ میں جو کار وبار کیا جائے گا نقصان سے دو چار ہوگا، جو سفر ہوگا وہ نامراد اور سقر (جہنم یعنی مصیبت کا سبب) ہوگا، جو شادی ہوگی وہ خانہ بر بادی ہوگی وغیرہ ،اِس کی بنیاد وہ نحوست تھی جو گناہوں کی وجہ سے فتنوں، وباؤں ،امراض و مصائب و حوادثات کی شکل میں کبھی اس مہینہ میں پیش آئی تھی اور اِس بنیاد پر جہلاء نے عقیدہ بنا لیا کہ صفر کا مہینہ نحوست و مصیبت کا مہینہ ہے۔ صفر کے متعلق بعض لو گوں کا گمان یہ تھاکہ وہ ایک قسم کاسانپ ہے جو انسان کے معدہ میں پرورش پاتا ہے اور جو بھوک کی شدت میں تکلیف محسوس ہوتی ہے اُس کی اصل وجہ وہی سانپ ہے جو اندر سے انسان کو ڈستا ہے،اس تصور سے ہی انسان لرز اُٹھتا تھا اور صفر کی آمد سے اُس کے تصورات واحساسات میں ایک ہلچل سی پیدا ہوجاتی تھی۔ اسی طرح دورِ جاہلیت میں ''نَسِیْیء '' والا عمل اپنی اغراضِ نفسانی کی وجہ سے ''صفر' ' میں جائز سمجھا جاتا تھا،نَسِیْیء کہتے ہیں مہینہ آگے پیچھے کرنے کی رسم کو، اور یہ رسم عام طور پر صفر میں ہوا کرتی تھی جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا اُسی دن سے سال کے بارہ مہینوں میں سے) چار مہینوں کو حرام قرار دیا تھا یعنی اِن میں قتل و قتال کی اجازت نہ تھی (یہ چار مہینے