ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
گویا بُرے کوبرائی کابدلہ اور اچھے کو بھلائی کابدلہ مِل کر رہے گا خواہ دُنیا میں ہوخواہ آخرت میں تواِنسان کو چاہیے کہ معمولی گناہوں سے بھی اِجتناب کرے صغیرہ گناہوں کے لیے بھی اِستغفار کرے، حق تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے تاکہ کہیں ایسانہ ہوکہ وہ گناہ جس کووہ معمولی اورچھوٹا سمجھتا ہے اُس کی گرفت اور عذاب کا باعث بن جائے۔صرف زبانی اِستغفار کافی نہیں : یہ بات بار بار کہہ چکا ہوں کہ اِستغفار صرف زبان سے کافی نہیں ،زبانی توبہ کا کوئی اِعتبار نہیں اِستغفار تب معتبرہے جب اَوّل گناہوں پر نادم ہو، جرم خواہ کتناہی بڑا کیوں نہ ہومگر جب دل میں ندامت اور شر مندگی ہو گی اور اُس گناہ کے باعث اپنے آپ کو ملا مت کرے گا تو حق تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ معاف فرمادیں گے۔ حدیث شریف میں بنی اِسرائیل کا ایک واقعہ مذکور ہے کہ بنی اِسرا ئیل میں ایک شخص تھا جس نے پوری زندگی گناہوں میں گزار دی تھی، بڑے بڑے قتل جیسے جرائم اُس سے صادر ہوئے تھے آخر میں وہ اپنے جرائم اور اپنی سیہ کا ریوں پر نادم ہوا اور ایک راہب کے پاس چلا آیا، اُس کے سامنے اپنا حال بیان کیا تو اُس نے کہا کہ تو بہت بڑا مجرم ہے تیرے جرائم معاف ہونے کے نہیں، یہ سن کر اُس نے راہب کوبھی قتل کر ڈالا اور ایک اور کے پاس اِسی غرض سے چلاگیا اِس کے حالات سن کر اِس کو ایک اور صاحب کے پاس جانے کا مشورہ دیا کہ وہ خدا کانیک بندہ ہے اُس کے سامنے تو بہ کرنا چنانچہ وہ گناہوں پر نادم اِنسان اُس شخص کی طرف روانہ ہوا، ابھی اُس نے بہت کم مسافت طے کی تھی کہ موت آپہنچی، آقائے نامدار ۖ فرماتے ہیں کہ وہ آدمی جب چلنے کے قابل نہ رہا تو سینے کے بل گھسٹنے لگا ،اُس کے پاس رُوح قبض کرنے کے لیے جب فرشتے آئے توفرشتوں میں گفتگو ہوئی۔ رحمت کے فرشتے کہتے کہ اِس کی رُوح ہم قبض کریں گے کیونکہ یہ گناہوں پر نادم اور پشیمان تو ہو ہی چکا ہے۔ عذاب کے فرشتے کہنے لگے کہ یہ بہت گنا ہگار ہے اِس لیے اِس کی جان ہم لیں گے۔