ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
اِس کے بعد جب آدم علیہ السلام دُنیاوی زندگی ختم کر چکے اور واپسی کا وقت آیا توملک الموت حاضر ہوئے۔ حضرت آدم علیہ السلام : کیامیری عمر میں چالیس سال باقی نہیں رہے ؟ ملک الموت : کیا آپ نے اپنے (بیٹے) داؤد علیہ السلام کودے نہیں دیے تھے ! سیّد الانبیاء رحمة للعالمین ۖ نے اِس واقعہ کو نقل فرمانے کے بعد فرمایا : ٭ آدم علیہ السلام نے انکار کیا تواولاد نے بھی انکار کیا۔ ٭ آدم علیہ السلام بھول گئے تواولادبھی بھول گئی ۔ ٭ حضرت آدم علیہ السلام نے خطا کی تو اولاد بھی خطا کرنے لگی۔ '' ١ مفسر ِ قرآن علامہ اِبن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت ِ کریمہ میں شہادت ١ سے مراد انسان کی فطرت ہے یعنی انسان کی پیدائش اور پیدائشی وضع ہی اِس قسم کی ہے کہ انسان کو تو حید کی طرف ہدایت کرتی ہے، علامہ موصوف کے نزدیک آیت کی تفسیر یہ ہے کہ خداوند عالم نے اولاد ِ آدم کو اُن کے آباء کی پشتوں سے پیدا ہی اِس صورت پر کیا کہ وہ فطرتاً شاہد ہیں کہ اُن کارب اور اُن کامالک ایک ہے اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ علامہ موصوف مندرجہ ذیل آیت سے اِستدلال کرتے ہیں :( فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِدِّیْنِ حَنَیْفًا فِطْرَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لاَ تَبْدِ یْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ) ٢ ''سو تو سیدھا رکھ اپنامنہ دین پر ایک طرف کا ہو کر، وہی تراش اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو، بدلنانہیں اللہ کے بنائے ہوئے کو۔ '' (شاہ عبد القادر )اس آیت کی تفسیر صحیحین کی اِس حدیث سے ہوتی ہے : ١ ( قَالُوْا بَلٰی شَھِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ ) ٢ ترمذی شریف تفسیر سُورة الاعراف ج ١ ص ١٣٣ ٢ سُورہ رُوم : ٣٠