ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
ہاتھ میں قیامت کے روز ''لوائِ حمد''ہوگا اور وہی عرشِ معلی کے نیچے سر بسجود ہو کر ایسی حمد کرے گا جس کی نظیر سے سارا عالم خالی ہوگا ۔حمد کے معنی ہیں ثنا خوانی، نیاز مندی، خالق کی بارگاہ میں سجدہ ریزی، خشوع، خضوع، اپنے رب کے آستانہ پرجَبہ سائی ١ ، تضرع اور ابتہال، شکر اور امتنان۔خدا وند عالم نے قرآنِ پاک میں اپنی عادت یہ بتائی ہے : (لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاَزِیْدَنَّکُمْ ) '' اگر تم شکر کرو تو میں بڑھا ئوں گا '' اِس نورِ کامل و مکمل کی کامل ومکمل حمد کا اثر تھا کہ سلسلۂ مخلوقات میں وسعت اور پھیلاؤ شروع ہوا قلم ، لوحِ محفوظ، عرش، کرسی، زمین، آسمان، فرشتے، جنات حتی کہ حضرت آدم اور اُن کی ذُرّیت پیدا ہوئی، نتیجہ کلام یہ کہ ساری کائنات کا مرجع اور مرکز ہی نورِ قدسی تھا، اُسی کے فیض سے جملہ کمالات جملہ موجودات کا ظہور ہوا چنانچہ اِرشادہے : لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ اگر آپ نہ ہوتے تومیں آسمانوں (یعنی عالم) کو پیدا نہ کرتا۔ بہرحال جبکہ نورِ قدسی کائناتِ عالم کے جملہ کمالات کے لیے اصل ہوا تو انبیاء علیہم السلام کی نبوت، رُسل علیہم السلام کی رسالت، اولیاء اللہ کی ولایت کی اصل بھی وہی نورِ محمد ہوگا(ۖ) ، یہی باعث ہے کہ آپ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے نبی تھے۔ اور یہی باعث ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام سے آپ کی نبوت کا عہد لیا گیا۔ اور یہی سبب ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہوئے کیونکہ تخم اگرچہ اصل کے لحاظ سے مقدم ہوتا ہے مگر اپنے ظہور کے لحاظ سے درخت کے برگ و بار، ٹہنیوں، شاخوں پھول اور کلیوں غرض درخت کی تمام ہی چیزوں سے مؤخر ہوتا ہے، یہی سبب ہے کہ شب ِمعراج میں آپ تمام انبیاء علیہم السلام کے امام بنائے گئے اور پھر اُس درجہ ٔ اعلیٰ تک پہنچے جہاں تک کائنات کا کوئی فرد نہ کبھی پہنچ سکا اور نہ پہنچ سکے گا۔ یہی سبب ہے کہ آپ قیامت کے روز جیسے شفیع المذنبین ہوں گے اِسی طرح آپ شفیع الانبیاء بھی ہوں گے۔ ١ پیشانی زمین پر رکھنا۔