ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
ترمذی شریف کی حدیث سے ہوتی ہے جس کو مصنف نے ''حسن صحیح ''کہا ہے ۔ رہی دوسری آیت یا بخاری اورمسلم کی احادیث تو وہ دوسرے معنی اَدا کر رہی ہے جس کا آیت ِ الست سے کوئی معارضہ نہیں کیونکہ عہد ِالست کی آیت کا مضمون یہ ہے کہ جس طرح حضرت حق جل مجدہ نے آدم علیہ السلام کو خلعت ِخلافت سے نوازا، ملائک سے اُس کا اقرار کرایا، شیطان کو بغاوت و تمرد کی بناء پر ملعون کیا اِسی طرح اولادِ آدم سے بھی ایک عہدلیا اور اِسی طرح انبیاء علیہم السلام سے بھی ایک معاہدہ ہوا(جس کا ذکر اِنشاء اللہ آئندہ آئے گا) یہ تمام واقعات پیدائش ِآدم کے وقت ہوئے۔ اب لا محالہ ملائک، اولاد آدم اور شیاطین کل مخلوقات اور تمام کائنات کے تین ہیرو ہوں گے، اِن میں سے ہر ایک کی فطرت دوسرے سے کچھ مختلف رہی : ٭ ملائک کی خیر محض اور سرا سر اطاعت جن سے معصیت کاصدور ہوہی نہیں سکتا(لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ)۔ ٭ شیاطین کی فطرت شرِ محض، سراسر تمرد جس سے خیر کا صدور نہیں ہو گا۔ ٭ اِنسان اور جن کی فطرت ربویت کی معترف ہے، حضرتِ حق کو پرور دگار تسلیم کرنا اُس کا طبعی جذبہ ہے جس میں کبھی کوئی انحراف نہیں چنانچہ اِرشاد ِ ربانی ہے :( وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ oمَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ ) (سُورہ طور : ٥٦،٥٧ ) ''یعنی انسان اور جن کا فطری جذبہ عبادت اور حضرتِ حق کے سامنے نیاز مندی ہے، کمائی اور اکتساب ِ رزق اُس کافطری جوہر نہیں۔ '' لیکن مطلوب یہ ہے کہ وہ صرف اِسی فطری جذبہ پر اِکتفاء نہ کرے بلکہ خلافت ِالٰہیہ کے تقاضے کے بموجب وہ قدوسی صفات اپنے اندر پیدا کرے، ربانی اخلاق کا خو گر ہو، اُس کو (اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ) ''سب سے بہتر فطرت'' عطا فرمائی گئی کہ وہ خدا وند ِ عالم کو دیکھے بغیر اُس کی آیات اور اُس کی خلَّاقِیَّت کی