ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَاَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہ اَوْ یُنَصِّرَانِہ اَوْ یُمَجِّسَانِہ کَمَثَلِ الْبَھِیْمَةِ تُنْتَجُ الْبَھِیْمَةَ ھَلْ تَرٰی فِیْھَا جَدْعَائَ۔ (بخاری شریف رقم الحدیث ١٣٨٥) ''ہر ایک بچہ ایک ہی فطرت اور طبیعت پر پیداکیا جاتا ہے اُس کے ماں باپ اُس کو یہودی نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں جس طرح جانور کہ وہ صحیح سالم ہی پیداہوتا ہے کیاتم نکٹے اور کن کٹے پیدا ہوتے دیکھا کرتے ہو۔ '' نیز مسلم شریف کی روایت ہے :وَاِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَائَ کُلَّہُمْ ، وَاِنَّہُمْ اَتَتْہُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاَجْتَالَتْہُمْ عَنْ دِیْنِہِمْ وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَا اَحْلَلْتُ لَہُمْ ۔ ١ ''اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام بندوں کو دین ِ حنیف ہی پر پیدا کیاہے پھر اُن کوشیاطین گھیر لیتے ہیں اور دین ِ فطرت سے اُن کوبہکا دیتے ہیں اور وہ چیزیں اُن پر حرام کرڈالتے ہیں جو میں نے اُن کے لیے حلال کی تھیں۔'' اس تفسیر کے بموجب مذکورہ بالا آیت کریمہ انسانی فطرت کی تمثیل ہوگی اور عہدِ الست یاشہادت سے ایک حالی معاہدہ اور حالی شہادت مراد ہوگی یعنی انسان کی زبانِ حال یہ عہد کر رہی ہے اور یہ شہادت دے رہی ہے کہ اُس کا رب ایک ہے۔ اس تفسیر کے بموجب اِس آیت کاتعلق ہمارے مبحث ( یعنی سیّدنا آدم علیہ السلام کے حالات) سے نہ ہوگا نیز اِس تفسیر کے بموجب یہ اعتراض بھی وار د نہ ہوگا کہ ا گر اس قسم کاکوئی معاہدہ ہوا تھا تو یادکیوں نہیں اور جب یاد نہیں رہاتو معاہدہ سے فائدہ کیا تھااور اُس کی مخالفت کی بناء پر اولادِ آدم کس طرح مستوجب ِسزا و عذاب ہو سکتی ہے۔ علامہ موصو ف تویہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ محققین علماء کاقول یہی ہے لیکن اِس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ محققین علماء نے آیت کی تفسیر اُس کے ظاہری ترجمہ کے مطابق ہی کی ہے جس کی توضیح ١ مسلم شریف کتاب الجنة وصفة نعیمہا و اہلھا رقم الحدیث : ٢٨٦٥