ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2016 |
اكستان |
|
نشانیوں میں غور و فکر کر کے کفر و شرک سے محفوظ رہ سکے۔ روشن آفتاب کی معجز نما سنہری کر نیں اگر کسی وقت اُس کی بصارت کو خیرہ کر کے اُس سے (ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَا اَکْبَرُ) ١ کہلوادیں تو تھوڑی دیر بعد جب غروب کی زردی آفتاب کے چہرہ کی رونق کو ماند کر کے تاریکی کی چادر اُس پر تاننے لگے تو وہ (اِنِّیْ لَآ اُحِبُّ الآفِلِیْنَ)'' ٢ کہہ کر اپنے اِس وسوسہ سے توبہ کر لے اور فطرتِ سلیم واحد ِبر حق کے اعتراف پر اُس کو مجبور کر کے کہلوادے(اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) ''میں نے اپنارُخ اُسی ذات کی طرف پھیر لیا جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیداکیا ما سوا سے منہ موڑ کر اور میں مشرک نہیں۔ '' بے شک اِنسان'' ظلوم و جہول'' بھی ہے مگر اُس کے یہی معنی ہیں کہ اُس میں'' عدل و انصاف اور علم و فکر'' کی طاقت فطرت نے ودیعت فرمائی ہے کیونکہ ''ظالم'' اُسی کو کہا جاتاہے جس میں ''عدل و انصاف ''کی طاقت ہو اور پھر وہ اُس پر عمل نہ کرے، ''جاہل'' اُسی کو کہتے ہیں جس میں ''علم ''کی صلاحیت ہو اور اُس کو وہ بیکار کردے ۔ دیوار، درخت، پتھر، گھوڑے، گدھے کوکوئی بھی ظالم یا جاہل نہیں کہتاکیونکہ اُن میں عدل و علم کی طاقت ہی نہیں یہی باعث ہے کہ اُس کو خدا وندی امانت اور ربانی الہام و وحی عنایت فرمائی گئی۔( اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ اِنَّہ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلاً) (سُورة الاحزاب : ٧٢ ) ''ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے رکھا اُنہوں نے اِس کے اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اِس سے خوف کھا گئے، انسان نے ا ِس کو برداشت کر لیا کیونکہ وہ ظلوم تھا (جس کے بجائے اِس کو عادل بنانا مقصود ہے) جہول تھا (یعنی جاہل تھا جس کے بجائے اِس کو عالم بنانا پیش نظر ہے)۔'' ١ یہ میرا پرور دگار ہے یہ سب سے بڑا ہے۔ ٢ میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں کرتا۔