استادومرشد مىں فقط تعلىم کى وجہ سے حق قائم ہوتا ہے، والدىن بے شمار سختىوں اور بے طمع محبت سے اولاد کى پرورش کرتے ہىں ، باوجود اولاد کى گستاخى اور سرکشى کے اپنى اضطرارى محبت سے اولاد پر شفقت کرنے سے اعراض نہىں فرماتے اور جان و دل ان پر قربان کرتے ہىں۔ بخلاف استاد و پىر کے کہ تھوڑى خفگى کى بھى اس قدر دشوار ہے جىسا کہ والدىن بے شمار سختىوں کا تحمل کرتے ہىں اور جزاء بمقدار عمل ہوا کرتى ہے ۔ پس چونکہ والد کا عمل بہت بڑا ہے لہٰذا درجہ بھى بڑا ہوا گو بطرىق شذوذ و ندرت بعض والدىن مىں شفقت مرشد واستاد سے کم پائى جائے اور بعض استاد و مرشد مىں والدىن سے زائد شفقت پائى جائے۔ پس اس کا اعتبار نہىں اس لىے کہ بہت ہى کم اىسا ہوتا ہے مدارِ حکم ىہ امر نہىں ہوسکتا مدارِ حکم وہى ہے جو بىان ہوا۔ خوب سمجھ لو اور مرشد و استاد کا حق دل وجان سے سعى کر کے ادا کرو کہ ان کے ذرىعہ سے انسانىت اور رضائے الٰہى نصىب ہوتى ہے مگر حد کو ملحوظ رکھو۔ ىہ مختصر مضمون اس موقع پر کافى ہے۔
بعضے کہتے ہىں کہ استاد کے حکم سے بىوى کو طلاق دىنا ضرور ہے، ىہ غلط محض ہے۔ اور ہر موقع پر تو والدىن کا بھى اتنا حق نہىں جىسا کہ بىان ہوچکا سوائے عزت و تکرىم اور ضرورت کے وقت مثل خدمت دىگر حضرات ان کى خدمت کرنے کے مثل والدىن ان کى اطاعت لازم نہىں، ہاں قرىب واجب ضرور ہے اس موقع پر