M!
تعارف
مرزاقادیانی نے ۱۸۹۱ء میں فتح اسلام وتوضیح مرام نامی رسائل قلم کئے اور ان کے حواری مولوی محمد احسن امروہی قادیانی نے تائید مرزا میں ’’اعلام الناس‘‘ نامی کتاب رقم کی تو علی گڑھ کے مولانا محمد اسماعیل مرحوم نے ان کے رد میں ایک کتاب ’’اعلاء الحق الصریح بتکذیب المسیح‘‘ تحریر فرمائی۔ اس کتاب پر مولانا لطف اﷲ علی گڑھی، میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی، شیخ حسین بن محسن یمانی، مولانا محمد بشیر سہسوانی، مولانا محمد، مولانا سلامت اﷲ جیراجپوری، ملا محمد صدیق پشاوری، مولانا عبدالجبار عمر پوری نے تقاریظ تحریر فرمائیں۔ اس کتاب اور اس پر موجود تقاریظ سے معلوم ہوتا ہے کہ متفقہ فتویٰ تکفیر مرزا کے سامنے آنے سے قبل بھی مذکورہ بزرگ ردقادیانیت میں سے سرگرم تھے۔
یاد رہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کے متعلق مرزاقادیانی کا کہنا تھا کہ: ’’اس میں مولانا اسماعیل نے ان سے یک طرفہ مباہلہ کیا تھا اور اس مباہلے کی وجہ سے مولانا اسماعیل اس کی زندگی میں ہلاک ہوگئے۔‘‘ جیسا کہ مرزاقادیانی اپنی موت سے ایک سال پہلے شائع ہونے والی کتاب میں لکھتے ہیں: ’’الذین باہلوا وماتوا بعد المباہلۃ منہم الرجل المسمی بالمولوی غلام دستگیر القصوری ومنہم الرجل المسمی بالمولوی چراغ الدین الجمونی ومنہم الرجل المسمی بالمولوی عبدالرحمن محی الدین اللکوکی ومنہم الرجل المسمی بالمولوی اسماعیل علی گرھی‘‘
(ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶ حاشیہ، خزائن ج۲۲ ص۶۲۶)
اور اسی حقیقت الوحی میں لکھتے ہیں: ’’مولوی اسماعیل باشندہ خاص علی گڑھ وہ شخص تھا جو سب سے پہلے عداوت پر کمربستہ ہوا اور جیسا کہ میں نے اپنے رسالہ فتح اسلام میں لکھا ہے۔ اس نے لوگوں میں میری نسبت یہ شہرت دی کہ یہ شخض رمل اور نجوم سے پیش گوئیاں بتلاتا ہے اور اس کے پاس آلات نجوم کے ہیں۔ میں نے اس کی نسبت ’’لعنت اﷲ علی الکاذبین‘‘ کہا اور خداتعالیٰ کا عذاب اس کے لئے چاہا۔ جیسا کہ رسالہ فتح اسلام کے لکھنے کے وقت اس کی زندگی میں ہی میں نے یہ شائع کیا تھا اور یہ لکھا تھا۔ ’’تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتہل فنجعل لعنۃ اﷲ علی الکاذبین‘‘ چنانچہ