جواب… کیوں حضرت احسن المناظرین صاحب؟ اس آیت کے وقت نزول سے لے کر اس وقت تک کہ ۱۳۰۹ھ ہیں۔ ہر طبقہ میں دس دس بیس بیس نہیں تو دو دو چار چار تو ایسے مسلمان گنوا دیجئے۔ جن کا معاذ اﷲ یہ عقیدہ ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام معاذ اﷲ شعبدہ باز تھے اور آیت تخلق لکم کا یہ مطلب ہے کہ مسیح نجاری کی قوت سے چڑیاں بناتے تھے اور ان کا باپ یوسف تھا اور اگر آپ نہ گنوا سکے تو پھر ان سب مسلمانوں کو بلاشبہ خارج از دائرہ اسلام کہنا اور اس آیت پر اعتقاد رکھنے والوں کو کافر اور مشرک سے بدتر سمجھنا کیسا شعار ہے اور اسی کا نام حسن ظن ہے؟ یہی اپنے بھائی مؤمن کی غیبت نہ کرنا ہے اور ایمان سے فرمائیے کہ قبل از ایمان لانے ان مسیح قادیانی کے کیا آپ کا یہی اعتقاد تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام یوسف نجار کے بیٹے تھے اور وہ شعبدہ باز اور ان کے یہ معجزے جن کا قرآن کی آیت مذکورہ بالا میں ذکر ہے۔ مکروہ اور قابل نفرت ہیں۔ معاذ اﷲ! ’’کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم‘‘ حضرت مولوی صاحب آپ تو آپ، آپ کے قادیانی مسیح اپنے ایک اظہار میں جو ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا دستخط شدہ میرے پاس موجود ہے۔ اپنے ہاتھ سے تحریر فرماتے ہیں کہ دس بارہ برس قبل میرا بھی یہی اعتقاد اور خیال تھا جو سب مسلمانوں کا ہے۔ دس بارہ سال سے میں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مگر اعلان کئے ہوئے دو چار برس ہوئے اور پھر بجواب اس سوال کے کہ تم مقلد ہو یا غیرمقلد!
مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں۔ ’’میرا مذہب بین بین ہے۔‘‘ اب فرمائیے یہ کیا ہوا اور کیسا شعار ہوا۔ اے جناب احسن المناظرین! آپ تو احسن المناظرین بن گئے۔ ذرا حسن خاتمہ کا بھی فکر کیجئے اور بھولیئے مت۔ دیکھئے حضرت عیسیٰ کون ہیں۔ ’’وجیہاً فی الدنیا والاٰخرۃ ومن المقربین‘‘ اور ایسے مقرب کے حق میں آپ اپنے مسیح کے اقوال ملاحظہ فرمائیے۔ حوالہ کے طور پر بھی ان الفاظ کے لکھنے سے میرا قلب کانپتا ہے۔ لکھا نہیں جاتا جو زیادہ لکھوں آپ نے تمام ازالہ ملاحظہ فرمایا ہوگا۔ کیوں حضرت اس بزرگ پیغمبر کے مقابلہ میں جس کو اﷲتعالیٰ وجیہ فرماتا ہے۔ آپ کے مسیح کا یہ فرمانا بے ادبی نہیں ہے۔
۸…اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابہ نہد پابہ منبرم
(قصیدہ الہامیہ، ازالہ اوہام حصہ اوّل ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)