ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2013 |
اكستان |
|
آقائے نامدار ۖ نے فرمایا کہ میری قبر کو تم سجدہ گاہ نہ بنانا اَور اُن لوگوں کو جو پہلے قومیں گزری ہیں اُن کو آقائے نامدار ۖ نے'' لعنت'' کے لفظ سے یاد فرمایالَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الْیَھُوْدِ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ ١ اُنہوں نے اَپنے اَنبیاء ِکرام کی قبروں کو مسجد بنایا سجدہ گاہ بنایا۔ اَوریہ بالکل شرک ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لیے اُنہیں سمجھ لے آدمی ذریعہ .............. ''وسیلہ'' درست ہے مگر ہر کوئی ہر جگہ اللہ سے خود بھی دُعا مانگ سکتا ہے : اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہرجگہ موجود ہے اَور ہر جگہ اُس سے دُعا کی جاسکتی ہے اُس کی طرف دِل کا رُجوع ہر وقت کرنا چاہیے رکھنا چاہیے اَور اُس سے دُعا کے لیے بات کرنے کے لیے اَپنی اِلتجا پیش کرنے کے لیے یہ نہیں ہے کہ کسی اَور سے آپ کہیں اَوروہ کرے آپ کی طرف سے ،تو ہی ہوگی ورنہ نہیں ہوگی یہ بات نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں ایک دُوسرے سے کہ ہمارے لیے دُعا کریں اُس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ خود نہیں کر سکتے دُعا حدیث شریف میں بتایا گیا ہے کہ ایک دُوسرے کے لیے دُعا کرو تو وہ زیادہ قبول ہوتی ہے بِظَہْرِالْغَیْبِ ٢ جہاں وہ موجود بھی نہ ہو وہاں اُس کے لیے کوئی دُعا کرے وہ زیادہ قبول ہوتی ہے یہ بتلایا گیا ہے۔ اِسی طرح ''وسیلہ'' کہ اے اللہ تعالیٰ فلاں کے وسیلہ سے میں دُعا کرتا ہوں یہ بھی دُرست ہے یہ بھی جائز ہے اَور یہ تصور ناجائز ہے کہ اللہ سے ہم براہِ راست مِل ہی نہیں سکتے جب تک یہ واسطہ نہ اِختیار کریں ،یہ غلط ہے، اِسلام نے اِس کو منع کردیا ۔ تو(کفار میں)دُنیا کی بیشتر آبادی تو اِسی طرح کے لوگوں کی ملے گی جو خدا کو مانتے ہیں مگر ساتھ میں شرک بھی کرتے ہیں ۔ ١ بخاری شریف کتاب الصلٰوة رقم الحدیث ٤٣٥ ٢ مشکوة شریف کتاب الدعوات رقم الحدیث ٢٢٢٨