ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
(١٢) حدیث ِ رسول ۖ سے کوئی اِسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔ (١٢) حدیث ِ رسول ۖ سے بھی اِسلامی عقائد اور اَعمال ثابت ہوتے ہیں۔ (١٣) حضور ۖ نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اِشاعت کے لیے کوئی بھی اہتمام نہیں کیا۔ (١٣) رسول اللہ ۖ نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اِشاعت کے لیے بہت اہتمام کیا تھا۔ (١٤) ابن ِ شہاب زہری کی کوئی روایت بھی قبول نہیں کی جاسکتی۔ وہ ناقابل ِ اعتبار راوی ہیں۔ (١٤) امام ابن ِ شہاب زہری روایت ِ حدیث میں ثقہ اور معتبر راوی ہیں اور اِن کی روایات قابل ِ قبول ہیں۔ (١٥) دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنتِ اِبراہیمی اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ (١٥) دین و شریعت کے مصادر و مآخذ قرآن، سُنّت، اِجماع اور اِجتہاد ہیں۔ (١٢) ''اِس (حدیث) سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اِضافہ نہیں ہوتا۔'' (میزان ص ٦٤ طبع ِدوم، اَپریل ٢٠٠٢ئ) (١٣) ''نبی ۖ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اَخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اِصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے، اُن کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِ علم اُنہیں ماننے سے اِنکار نہیں کرسکتا۔ ایک یہ کہ رسول اللہ ۖ نے اُن کی حفاظت اور تبلیغ و اِشاعت کے لیے کبھی کوئی اِہتمام نہیں کیا۔ دُوسری یہ کہ اُن سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم ِ یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔'' (میزان حصہ دوم ص ٦٨ طبع ِ دوم، اَپریل ٢٠٠٢ء ) (١٤) ''اِن (امام ابن ِ شہاب زہری) کی کوئی روایت بھی، بالخصوص اِس طرح کے اہم معاملات میں قابل ِ قبول نہیں ہوسکتی۔'' (میزان ص٣١، طبع ِ دوم اپریل ٢٠٠٢ئ) (١٥) ''قرآن کی دعوت اِس کے پیش ِ نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے وہ یہ ہیں : (i) دین ِ فطرت کے حقائق (ii) سنت ِ اِبراہیمی (iii) نبیوں کے صحائف۔'' (میزان طبع ِ دوم ص ٤٨ مطبوعہ اَپریل ٢٠٠٢ئ)