ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
خلافت مستحکم ہوجائے تو بیعت ضروری ہوجاتی ہے : اور مسئلہ اِسی طرح سے ہے کہ جب خلافت جم جائے تو پھر اُس کے ہاتھ پر بیعت ضروری ہوجاتی ہے،نہ جمی ہو تو ضروری نہیں۔ تو کچھ حضرات ایسے ہیں کہ جنہوں نے حضرت ِ علی کا ساتھ تو دیا، ساتھ تو رہے ہیں لیکن بیعت نہیں کی۔ اُن میں حضرتِ سعد بن ابی وقاص ہیں جو عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں، حضرتِ محمد بن مَسْلَمہ جوبیعت کرنیوالوں میں ہیں مگر لڑائی میں ساتھ نہ دینے والوں میں سے بھی ہیں۔ اُنہی میں اُسامہ بن زید جنہوں نے لڑائی میں حصہ نہیں لیا معذرت کرلی کہ یہ میں نہیں کرسکتا البتہ رہے وہ اِسی علاقے میں ہیں جو حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا اور بیت المال سے جو وظیفہ ہوا کرتا تھا اِن کا وہ بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ہی سے تھا۔ یہ اُسامہ بن زید کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے بھیجا اپنے آدمیوں کو اور وہ پہنچے کوفہ۔تو جسے بھیجا تھا اُس سے کہا کہ وہ ٢ پوچھیں گے ضرور کہ وہ ہے کہاں؟ وہ ساتھ کیوں نہیں آئے کیونکہ وہ تو ایسے تھے جیسے گھر کا آدمی ہو وہ میرے ساتھ کیوں نہیں ہیں یہاں۔ تو وہ پوچھیں گے ضرور تو اُن سے کہہ دینا یہ کہ اگر آپ شیر کے جبڑے میں ہوتے تو میں یہ چاہتا کہ میں وہاں بھی آپ کے ساتھ ہوں لیکن یہ معاملہ ایسا ہے کہ میں اِس میں شامل نہیں ہوسکتا۔ ٢ حضرت ِاُسامہ کی اِحتیاط کی وجہ : واقعہ ایک گزرا تھا حضرتِ اُسامہ اور ایک اور صحابی تھے، اِن دونوں نے جنگ میں ایک آدمی کو پکڑا، اُس نے کلمہ پڑھ لیا تو اَنصاری جو اِن کے قریب تھے وہ حملہ کرتے کرتے رُک گئے اور اِنہوں نے ماردیا۔ اَب اُسامہ جب واپس آئے ہیں تو رسول اللہ ۖ کے سامنے یہ قصّہ پیش ہوا تو رسول اللہ ۖ کی طبیعت پر بہت شدید اثر ہوا اور بار بار آپ فرماتے رہے اَقَتَلْتَہ بَعْدَ اَنْ قَالََ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اوکماقال علیہ السلام ٣ جب یہ کلمہ اُس نے کہہ دیا پھر تم نے مارا۔ وہ کہتے ہیں اُسامہ کہ میرے دل میں یہ آتا تھا کہ میں نومسلموں میں ہوتا اور آج مسلمان ہوتا تو یہ اچھا ہوتا بہ نسبت اِس کے کہ رسول اللہ ۖ کی اِتنی ناگواری اور ملامت میں محسوس کروں۔ چنانچہ یہ کسی مسلمان پر تلوار اُٹھانے سے ہمیشہ کے لیے باز آگئے، اِس لیے لڑائی میں نہیں شامل ہوسکے حضرت علی رضی ا للہ عنہ کے ساتھ۔ ١ حضرت علی ٢ بخاری شریف ص ١٠٥٣ ٣ بخاری شریف ص ٦١٢ و ١٠١٥