ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
(١٦) معروف اور منکر کا تعین اِنسانی فطرت کرتی ہے۔ (١٦) معروف اور منکر کا اَصل تعین وحی الٰہی سے ہوتا ہے۔ (١٧) نبی ۖ کی وفات کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (١٧) جو شخص دین کے بنیادی اُمور یعنی ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا بھی اِنکار کرے اُسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے۔ (١٨) عورتیں بھی باجماعت نماز میں امام کی غلطی پر بلند آواز سے ''سبحان اللہ'' کہہ سکتی ہیں۔ (١٨) امام کی غلطی پر عورتوں کے لیے بلند آواز سے'' سبحان اللہ'' کہنا جائز نہیں۔ (١٩) زکوٰة کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔ (١٩) زکوٰة کا نصاب منصوص اور مقرر شدہ ہے۔ (٢٠) ریاست کسی بھی چیز کو زکوٰة سے مستثنٰی کرسکتی ہے۔ (٢٠) اِسلامی ریاست کسی چیز یا شخص کو زکوٰة سے مستثنٰی نہیں کرسکتی۔ (جاری ہے ) (١٦) ''معروف و منکر وہ باتیں (ہیں) جو اِنسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت اِباء کرتی اور اُنہیں بُرا سمجھتی ہے۔ اِنسان اِبتداء ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل اَلگ اَلگ پہچانتا ہے۔ (میزان ص ٤٩ طبع ِ دوم اَپریل ٢٠٠٢ئ) (١٧) ''کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے۔ پیغمبر اپنے اِلہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے۔ یہ حیثیت اَب کسی کو حاصل نہیں۔ (ماہنامہ اِشراق، ص ٥٤،٥٥، دسمبر ٢٠٠٠ء ) (١٨) ''اِمام غلطی کرے اور اُس پر خودمتنبہ نہ ہو تو مقتدی اُسے متنبہ کرسکتے ہیں۔ اِس کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ''سبحان اللہ'' کہیں گے۔ عورتیں اپنی آواز بلند کرنا پسند نہ کریں تو نبی ۖ کا اِرشاد ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ مارکر متنبہ کردیں۔'' (قانونِ عبادات ص ٨٤ اَپریل ٢٠٠٥ئ) (١٩) و (٢٠) ''ریاست اگر چاہے تو حالات کی رعایت سے کسی چیز کو زکوٰة سے مستثنٰی قرار دے سکتی ہے اور جن چیزوں سے زکوٰة وصول کرے اُن کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کرسکتی ہے۔'' (قانونِ عبادات ، ص ١١٩، طبع اَپریل ٢٠٠٥ئ)