ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
اُس کو روک نہیں سکتا ۔اور جب اُتنا مہر دے دیا تو اب شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی ۔اُس کی مرضی کے بغیر کہیں آنا جانا جائز نہیں اور شوہر کا جہاں جی چاہے اُسے لے جائے،جانے سے اِنکار دُرست نہیں ۔ اگر نکاح کے وقت میں مہر کا بالکل ذکر نہ ہو یا مجہول یا حرام شے کا بطور ِمہر ذکر ہو : مسئلہ : اگر نکاح کے وقت مہر کا بالکل ذکرنہیں کیا گیا کہ کتناہے یا اِس شرط پر نکاح کیا کہ بغیر مہر کے نکاح کرتا ہوں کچھ مہر نہ دُوں گا یا کسی حرام چیز مثلاً شراب کو مہر بنایا یا مجہول قسم کی چیز ذکرکی مثلاًکہا جانور دُوں گا یا کپڑ ا دُوںگا کہ اُس کی نوع کو ذکر نہیں کیا،پھر دونوںمیں سے کوئی مرگیا یا اُن میں خلوت ِصحیحہ پائی گئی تب بھی مہر دِلایا جائے گا ،اور اِس صورت میں مہر مثل دینا ہوگا اور اگر اِس صورت میں خلوت ِصحیحہ سے پہلے مرد نے طلاق دے دی تو مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ فقط ایک جوڑا کپڑا پائے گی اور یہ جوڑا دینا مرد پر واجب ہے، نہ دے گا تو گناہ گار ہو گا۔ مسئلہ : ہمارے علاقوں میں جوڑے میں فقط چار کپڑے مرد پر واجب ہیں: ایک کرتہ، ایک سربند یعنی دوپٹہ، ایک پائجامہ یا ساڑھی جس چیز کا دستور ہو، ایک بڑی چادر جس میں سر سے پیر تک لپٹ سکے۔ اِس کے سوا اَور کوئی کپڑا وَاجب نہیں ۔ مسئلہ : کپڑے دینے میں مرد وعورت دونوں کی حیثیت کا اعتبا کیا جائے گا ۔اگر دونوں مالدار ہوں تو اعلی کوالٹی کے کپڑے دے ،اگر دونوں غریب ہوں تو گھٹیا کوالٹی کے، اور اگر دونوں درمیانے درجے کے ہوں یا ایک مالدار ہو اور ایک غریب ہو تو درمیانے کپڑے دے ،لیکن ہر حال میں یہ خیال رہے کہ اُس جوڑے کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے نہ بڑھے۔ اور ایک تولہ پونے چار ماشہ چاندی کی قیمت سے کم کا بھی نہ ہو،مطلب یہ ہے کہ بہت قیمتی کپڑے جن کی قیمت مہر مثل کے آدھے سے بڑھ جائے مرد پر واجب نہیں، ویسے اپنی خوشی سے اگروہ بہت قیمتی اور اِس سے زیادہ بڑھیا کپڑے دے دے تو اور بات ہے۔ مسئلہ : نکاح کے و قت توکچھ مہر مقرر نہیں کیا گیا لیکن نکاح کے بعد میاں بیوں دونوں نے اپنی خوشی سے کچھ مقرر کرلیا تو اَب مہرِ مثل نہ دِلایاجائے گا بلکہ دونوں نے اپنی خوشی سے جتنا مقرر کرلیا ہے وہی دِلایا جائے گا۔البتہ اگر ویسی تنہائی ویکجائی ہونے سے پہلے ہی طلاق مل گئی تو اِس صورت میں مہر پانے کی مستحق نہیں ہے بلکہ صرف وہی ایک جوڑا کپڑا ملے گا۔(جاری ہے)