ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
دن میں اِن کو دُرست کرسکتا ہے۔ چنانچہ سخت مزاج کے لوگ ایسا کر بھی لیتے ہیں۔ بزرگوں نے نقل کیا ہے عقلمند آدمی پر تو عورتیں غالب آجاتی ہیں مگر جاہل مرد اِن پر غالب ہوجاتے ہیں۔ اِس کا راز یہی ہے کہ عقلمند تحمل و صبر سے کام لیتا ہے اور جاہل تحمل نہیں کرتا ،اِس لیے جاہلوں سے یہ خوب دُرست ہوجاتی ہیں۔ بہرحال عورتوں کو تکبر کرنا بہت نازیبا ہے۔ (الحج المبرور۔ التبلیغ ٢ /١٢٦) تکبر او ر خود پسندی کا علاج : ایک عورت نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں ایک خط میں تحریر کیا کہ : ''والدین کے گھر سے گئی تو وہاں اکثر مردوں اور عورتوں کو بے نماز پایا اور میں باقاعدہ نماز پڑھتی تھی۔ بہت دفعہ دِل میں خیال آتا تھا کہ میں اِن بے نماز مردوں اور عورتوں سے اچھی ہوں۔ یہ لوگ فضول وقت ضائع کرتے ہیں ،میں عبادت کرلیتی ہوں۔ حضرت اِرشاد فرمائیں کہ میں کیا کروں تاکہ دُوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے کا عیب دُور ہو۔'' حضرت حکیم الامت تھانوی نے جواب اِرشاد فرمایا : اِس میں تو انسان مجبور ہے کہ اپنے نمازی ہونے کا اور اُن کے بے نماز ہونے کا خیال آئے۔ لیکن اِس میں مجبور نہیں کہ وہ یوں سوچے کہ گو میں نمازی ہوں اور یہ بے نمازی ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہر نمازی بے نمازی سے اچھا ہو۔ ممکن ہے بے نمازی کے پاس کوئی ایسا نیک عمل ہو اور نمازی کے پاس ایسا کوئی برا عمل ہو جس سے مجموعی طور پر وہ بے نمازی اُس نمازی سے افضل ہو۔دُوسرے ممکن ہے کہ انجام میں (یعنی آئندہ چل کر) یہ نمازی بے نمازی ہوجائے اور بے نمازی، نمازی ہوجائے۔ بہرحال بے نمازی کے اللہ کے نزدیک افضل ہونے کا احتمال ہے پھر اپنے کو افضل سمجھنے کا کیا حق ہے؟ البتہ نماز ایک نعمت ہے جو حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھ کو عطا فرمائی ہے اور بے نمازی ہونا ایک مرض ہے جس میں یہ بے نمازی مبتلا ہے تو جس طرح صحت والے کو شکر کرنا واجب ہے اور مریض کو حقیر سمجھنا جائز نہیں بلکہ اُس پر رحم کرے اور اُس کی صحت کے لیے دُعاء کرے، اِسی طرح مجھ کو بھی چاہیے کہ اپنی عبادت پر اللہ کا شکر کروں اور مریض کی حالت پر رحم کروں (یعنی اُس کی ہدایت کی دُعاء و کوشش کروں) ۔ اِس طرح بار بار خیال کرنے سے یہ مرض جاتا رہے گا اور اِس طرح سوچنا اختیاری بات ہے، اِس اختیار سے کام لینا چاہیے۔ (مکتوبات اشرفیہ بحوالہ نیک خاوند نیک بیوی) (جاری ہے)