ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
بعد میں حضرتِ علی کے فیصلے ہمیشہ کے لیے قانون بن گئے : اَب جتنے بھی باغیوں کے یا دوسرے فتوے بعد میں مرتب کیے گئے مسالک مرتب کیے ائمہ اربعہ نے حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کے اقوال اور اُن کے فتوؤں اور اُن کے فیصلوں کو لیا ہے اور اِن سب حضرات کے فیصلوں اور رائے کو اُنہوں نے مرجوح ١ قرار دیا ہے۔ اور بغاة کے اَحکام اُن ٢ سے ہی لیے گئے ہیں، تو باغی کو ماررہے ہیں وہ گرگیا ہے، وہ زخمی ہوگیا ہے، وہ ہتھیار پھینک کر بھاگ گیا ہے، وہ گھر میں چُھپ گیا ہے تو کیا کیا جائے؟ چھوڑدیاجائے۔ یہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ سے لیا گیا۔ جَمَل کے موقع پر جو اِرشاد ات فرمائے وہ احکام بنے ہیں۔ تو احمد ابن ِ قیس نے حضرتِ عائشہ سے کہا کہ آپ کے فرمانے پر میں نے اُن سے بیعت کی ہے تو اَب کیسے؟ حضرت ِ علی کی عالی ظرفی اور دُور اندیشی : پھر جب حضرتِ علی رضی اللہ عنہ بصرہ پہنچے اُنہوں نے احمد بن قیس کو بلایا، اُن کا قبیلہ بھی تھا، اُنہوں نے کہا جناب ٹھیک ہے بیعت میں نے جناب کے دست ِ مبارک پر کی ہے، آپ اِرشاد فرمائیں تو میں آپ کے ساتھ مل کر لڑوں گا اورچلوں گا۔ اور اِرشاد فرمائیں تو میں دوسرے جو قبیلے ہیں یا اور لوگ ہیں اُن سب کو لڑائی میں آنے سے روک دوں، اِن دو میں سے جو آپ پسند فرمائیں۔ تو حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ تم اُن کو لڑائی میں آنے سے روک دو یہ بہتر ہے بہ نسبت اِس کے کہ تم میرے ساتھ شامل ہوکر لڑو، گویا یہ گنجائش وسعت ِ قلب بہت زیادہ تھی۔ اُنہوں نے نظر انداز فرمایا ہے ایسے حضرات کو۔ تو حضرتِ محمد بن مَسْلَمہ رضی اللہ عنہ کی یہاں تعریف کی بات آرہی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اِن کے بارے میں یہ فرمایا کہ اِنہیں فتنے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا بچے رہیں گے اور عمل اِن کا یہ رہا ہے کہ ساتھ اِنہوں نے دیا ہے رہے اُسی علاقے میں ہیں وہاں سے ہٹ کر نہیں گئے، مدینہ طیبہ ہی میں رہے ہیں، وہیں کے رہنے والے ہیں، وہیں وفات ہوئی ہے ٤٥ یا ٤٦ ہجری میں، لیکن عملی طورپر یکسو ہوکر رہے ہیں۔ حضرت کی سورہ کہف پڑھتے رہنے کی تلقین : اور مجھے ویسے خیال آتا ہے بہت دفعہ، دل چاہتا ہے کہنے کوبھی کہ یہ جو سورۂ کہف ہے اِس کی دس ١ بے وزن ٢ حضرت علی