ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
کر اہل ِ فتنہ نے شہید کردیا۔ پھر کسی نہ کسی کو تو خلیفہ بنانا تھا ، حضرت ِ علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مناسب دُوسری شخصیت کوئی نہیں تھی۔ اہل ِ بدر کی اہمیت : اُنہوں نے ایک شرط لگائی کہ اہل ِ بدر مجھ سے کہیں تو میں خلافت پر بیعت لوں گا باغیوں کے کہنے سے نہیں یا اور عوام کے کہنے سے نہیں۔ یہ بات بھی ایسی تھی کہ جیسے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک معیار بنادیا تھا کہ یہ حضرات جو عشرۂ مبشرہ میں سے باقی تھے اُن میں سے کوئی بھی کثرت ِ رائے سے ہوجائے جسے وہ منتخب کریں۔ اِسی طرح حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے اہل ِ بدر کو بنادیا معیار۔ سبقت لے جانے والوں کا درجہ بڑا ہے : اور اسلام نے جو علماء تھے، متقدمین تھے، اُن کا حق مانا ہے وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ اور لَایَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی سب ٹھیک ہیں اچھے ہیں، اللہ نے وعدہ کیا ہے اِن کے ساتھ اچھائی کا بھلائی کا لیکن اِن لوگوں نے جو سابقین اولین ہیں اُن کا درجہ بلند ہے۔ اُن کے بعد وہ اور حضرات بھی آئے، اہل ِ بدر بھی آئے اور اُن کے علاوہ بیعت ِ رضوان والے آئے، پھر وہ کہ جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا اور جہاد کیا اُن کا درجہ بڑا ہے بہ نسبت اُن کے کہ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور جہاد کیا۔ ہاں ہر ایک سے وعدہ ہے اللہ کا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ۔ تو اُنہوں ١ نے ایک معیار یہ رکھا کہ اہل ِ بدر میں سے بنالیں، تو اہل ِ بدر سب کے سب آئے جو وہاں موجود تھے، وہ تقریبًا اَسّی حضرات غالبًا حیات ہوں گے۔ کیونکہ حضرتِ عبد الرحمن بن عوف کی وفات کے وقت جو اہل ِ بدر شمار کیے گئے تو حضرت عثمان سمیت سو بنتے تھے اور اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ میرے مال میں سے اِتنا اِتنا تمام اہل ِ بدر کو دے دیا جائے۔ تو اُن کی فضیلت مُسلَّمہ تھی۔ اُنہوں نے اُس کو معیار بنایا تو حضرت ِ علی کو خلیفۂ وقت بنادیا گیا، بات واضح ہوگئی۔ لیکن ایک چیز اور ہوتی ہے کہ وہ خلافت تمام جگہوں پر جَم جائے، خلافت کا جمائو ہوجائے تمام علاقوں میں، وہ حضرت معاویہ کی مخالفت کی وجہ سے شام پر نہیں ہوئی۔ ١ حضرت علی