ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
عورتوں کے رُوحانی اَمراض ( از اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) تکبر : تکبر انسان کو تمام فیوض و برکات سے محروم کردیتا ہے۔ یہی تو وہ بلا ہے جس کی وجہ سے شیطان مردُود ہوا۔ ہمارے اندر تکبر گُھسا ہوا ہے اِسی واسطے ہم کمالِ دین سے محروم ہیں اور عورتوں میں یہ مرض بہت ہے۔ اوّل تو اِن میں دیندار بہت ہی کم ہیں اور جو دیندار ہیں وہ بھی اپنے کو نہ معلوم کیا سمجھتی ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ عورتیں کم حوصلہ والی ہوتی ہیں اور ذراسی بات میں تکبر کرنا اور بڑائی کرنا کم حوصلہ آدمی کا کام ہے۔ ایک عورت بڑی نمازن تھی۔ اتفاق سے اُس کی شادی ڈاڑھی منڈے بے نمازی سے ہوگئی تو وہ کیا کہتی ہے کہ اللہ رے تیری شان !ایسی پارسا عورت ایسے بے دین سے بیاہی گئی۔ گویا اُسے نعوذ باللہ خدا پر بھی اعتراض تھا کہ خدا تعالیٰ کے یہاں کچھ ضابطہ نہیں ،جوڑے جوڑکر نہیں دیکھتے۔ استغفر اللہ ! اَرے تم کو کیا خبر ہے کہ کس کا خاتمہ اچھا ہو؟ خدا تعالیٰ کس کو بخشے اور کس کو جہنم میں بھیج دے؟ کیا تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ اُس بے نمازی کو کس اَدا پر بخش دے اور تم کو اِس تکبر کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دے۔ اوّل تو خاتمہ کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ دُوسرے جن اعمال پر تم کو ناز ہے کیا خبر ہے وہ قبول بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟ گو اُمید تو یہی رکھنی چاہیے کہ قبول ہوئے ہیںمگر وحی بھی نہیں آگئی اِس لیے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اور کبھی اپنے اعمال پر ناز نہ کرنا چاہیے، نہ دُوسروں کو حقیر سمجھنا چاہیے کیونکہ اِس سے اَندیشہ ہے اعمال کے برباد ہوجانے کا۔ (الکمال فی الدین النساء ص ٩١) آج کل یہ خبط (اور عام مرض) ہوگیا کہ تھوڑا سا کمال ہوجاتا ہے تو اپنے کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔ اگر کوئی عورت ذرا نماز اور تلاوت کی پابند ہوجاتی ہے تو اپنے کو رابعہ بصری سمجھنے لگتی ہے اور ہر ایک کو حقیر سمجھتی ہے۔ اور وجہ اِس کی یہ ہے کہ اُن کی کسی نے تربیت تو کی نہیں، کتابیں پڑھ پڑھ کر دیندار ہوجاتی ہیں۔ بس اِن کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی طب (ڈاکٹری) کی کتابیں دیکھ کر دوائیں کھانے یا بنانے لگے۔ اِس سے بجائے نفع کے ضرر غالب ہوگا۔ جب تک طبیب کی رائے سے دوا نہ