ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوچکے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر لوگوں نے بیعت کرلی تھی اِنہوں نے بھی بیعت کرلی۔ بیعت کرنے کے بعد یہ چلے گئے بصرہ۔ اُدھر سے حضرتِ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی حضرت ِ علی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے باوجود طبیعت پر اِس قدر بے چینی تھی کہ وہ مدینہ طیبہ میں نہیں ٹھہرے اوروہاں سے نکل گئے ۔ اورکچھ ایسا لگتا ہے جیسے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو تویہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ خلیفۂ وقت شہید ہوجائیں گے کیونکہ جب اُنہیں کہلایا گیا کہ آپ آئیں مدد کے لیے تو اُنہوں نے کہا نہیں میں نہیں آتا مدد کے واسطے۔ میرا روپیہ اِن کی طرف اُدھار ہے جب تک وہ سارے پیسے نہیں دیں گے میں نہیں آئوں گا۔ حضرتِ طلحہ کے قاتل مروان کی اِن سے بدگمانی کی وجہ : تو یہی بات تھی جومروان کے ذہن میں بیٹھ گئی کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ تو اُن لوگوں میں تھے جو حضرت عثمان کے خلاف کام کررہے تھے گویا۔ حالانکہ معاذ اللہ وہ ایسے نہیں تھے۔ بلکہ صورتِ حال یہ تھی کہ اُن کو یہ انداز ہی نہیں تھا کہ ایسی صورت پیش آجائے گی کہ خلیفۂ وقت کو شہید کردیا جائے گا۔ جب یہ حادثہ پیش آیا تو پھر جیسے ذہن جواب دے جاتا ہے وہ کیفیت ہوئی۔ حضرتِ علی کے ہاتھ پر حضرتِ طلحہ و حضرت زبیر کی بیعت : بیعت تو ہوگئے حضرت علی کے دست ِ مبارک پر لیکن اُس کے بعد خود باہر چلے گئے، وہاں مشورہ ہوا۔ حضرتِ عائشہ، حضرتِ طلحہ، حضرتِ زبیر کا بصرہ پر قبضہ : بہرحال وہ ایک واقعہ ہے کہ وہ بصرہ پر گئے، وہاں قبضہ کرلیا، حضرتِ عائشہ، حضرتِ طلحہ، حضرت زبیررضی اللہ عنہم، یہ تین حضرات تھے جو قائد تھے۔ اِن میں امیر المؤمنین کوئی بھی نہیں تھا : اِن میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے امیرالمؤمنین کہا جائے بلکہ اِس مروان نے سوال کیا ہے ایک، یہ بھی اِدھرسے بصرہ چلاگیا تھا اور بھی لوگ چلے گئے تھے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ تم میں سے کس کو میں سلام کیا کروں عَلَی الْاِمْرَةِ اِمارت کا سلام کس کو کیا کروں یعنی سلام کے ساتھ امیرالمؤمنین کا لفظ کس کے