ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
حضرت ِمحمد بن مسلمہ کی اِحتیاط کی وجہ : اور یہ جو محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ ہیںتو جناب ِرسول اللہ ۖ سے ایک دفعہ گفتگو کے دوران کوئی بات ہوئی بلکہ تلوار ایک دی تھی یا پسند فرمائی تھی اِن کی تلوار، اُسی پر بات چلی کہ اِس سے لڑتے رہو لیکن ایک دَور ایسا آئے گا جو فتنوں کا ہوگا، اُس زمانہ میں اِس تلوار کو توڑدینا اور لکڑی کی تلوار بنالینا۔ تو اِنہوں نے اِسی طرح عمل کیا۔ یہ شامل نہیں ہوئے ہیں لیکن ساتھ تو رہے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کے۔ حضرتِ علی کی عالی ظرفی : اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی وسعت تھی طبیعت میں، بڑی گنجائش تھی۔ ایک دفعہ فرمایا لِلّٰہِ مَنْزِل نَزَلَہ سَعْد وَابْنُ عُمَرَ یہ بہت اچھا مقام ہے جو سعد اور ابن ِعمر نے اختیار کیا۔ اِنْ کَانَ ذَنْبًا اگر یہ گناہ ہے تو یہ صغیرہ ہے اور اگریہ حَسَنَہ ہے تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یعنی یہ کہ خلیفۂ وقت جو خلیفۂ برحق ہے، خلیفۂ راشد ہے اُس کے ساتھ شریک ِ عمل نہ ہو ، عمل میں پیچھے رہے۔ اگر یہ گناہ ہے تو یہ صغیرہ ہی ہے، چھوٹا ہی گناہ ہے، اور اگر یہ نیکی ہے کہ کسی مسلمان کے خون سے ہاتھ نہ رنگنے پائیں تو یہ نیکی بہت بڑی نیکی ہے، تو یہ حَسَنَۂ کبیرہ ہے۔ تو اُن کے ذہن ِ مبارک میں اِتنی گنجائش تھی کہ جن حضرات نے ایسے لڑائی میں ساتھ دینے سے تخلُّف کیا اِنہوں نے اُنہیں اجازت دی۔ ایک صاحب ہیں احمد بن قیس، تابعین میں بڑے بڑے حضرات گزرے ہیں جو علمی اعتبار سے بھی بہت بڑے ہیں اور جتنے علمی اعتبار سے بڑے ہیں یہ سب کے سب مجاہد ہیں اور یہ سب جنرل تھے۔ تو احمد بن قیس نے بھی فتوحات کیں۔یہ آئے ہیں وہاں اُسی سال جس سال حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو اِنہوں نے مدینہ طیبہ کا جائزہ لیا اور اُس میں انداز یہ کیا کہ حالات ایسے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی جان محفوظ نہیں۔ اگر خدانخواستہ اُنہیں شہید کردیا گیا تو میں کیا کروں ؟ حضرتِ عائشہ کی جانب سے حضرتِ علی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مشورہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مکہ مکرمہ میں مشورہ کیا کہ میں کیا کروں؟ اُنہوں نے کہا ایسے کرنا کہ پھر علی کے ہاتھ پر بیعت کرلینا اگر ایسی صورت پیش آجائے۔ یہ مکہ مکرمہ سے پھر مدینہ طیبہ آئے تو حضرت