ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2007 |
اكستان |
|
لیے لگائوں، تو کسی نے بھی نہیں کہا کہ (فلاں کے ساتھ) لگائو، یعنی اپنے لیے امیرالمؤمنین ہونے کا مدعی کوئی بھی نہیں تھا، ہاں یہ تھا کہ اِنہیں غصہ تھا قاتلین ِ عثمان پر اُس کی وجہ سے وہاں گئے ہوئے تھے۔ تو پھر حضرتِ علی رضی اللہ عنہ بھی بصرہ پہنچے ہیں۔ احمد ابن ِ قیس کا حضرتِ عائشہ کو جواب : وہاں حضرت ِعائشہ رضی اللہ عنہا نے دعوت دی احمد ابن ِ قیس کو کہ آئو ہمارے ساتھ، تو اُنہوں نے کہا کہ جناب آپ ہی نے فرمایا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلینا میں اُن سے بیعت کرچکا ہوں تو اَب میں کیسے واپس آئوں، آپ کے فرمانے پر کیا اور خود اَب آپ اُن کے خلاف باہر تشریف لے آئیں۔ خلاف تو اُن کے نہیں تھیں بس یہی تھا کہ قاتلین ِ عثمان سے خود بدلہ لیں۔ اِن حضرات کی اِجتہادی غلطی : اِن حضرات کی جو اجتہادی غلطی شمار کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے کہ کہیں حکومت ہو کسی کی اور کسی نے کسی کو ماردیا تو اَب یہ نہیں ہے حق کسی کو بھی رعایا میں سے کہ وہ خود بدلہ لے بلکہ حق یہ ہے کہ وہ جائے تھانے میں رپورٹ درج کرائے۔ آج انگریزی قانون میں بھی یہی سلسلہ ہے۔ تو قاعدے کی بات یہ تھی کہ جو امیرالمؤمنین ہو یا حاکم ِ وقت ہو بدلہ وہ لے کر دے گا، خود بدلہ لینے کا حق جو ہے وہ نہیں رہتا بلکہ اُس کے ذریعے یہ شخص بدلہ لے گا،اُس کے ذریعے یہ شخص قاتل کو پکڑوائے گا اپنے ہاتھ سے ماردے گا یعنی شرعی طور پر اگر قانون ہو۔ تو اِن حضرات نے یہ کیا کہ قاتلین ِ عثمان جو تھے اُن کو مارنے کے لیے خود چلے گئے۔ خود حضرتِ معاویہ کا عملی رُجوع : دُوسرے یہ کہ جس غلطی سے سب نے ہی رجوع کیا ہے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سمیت، وہ یہ سمجھتے تھے کہ جتنے بھی آنے والے تھے مدینہ منورہ میں وہ سب کے سب قاتلین ِ عثمان ہیں اور سب کے سب کو ماراجانا چاہیے اور یہ ناممکن جیسی بات ہے، تھی ہی ناممکن۔ خود حضرت معاویہ کے اپنے دَور میں قاتلین کے گروہ میں سے بہت سے لوگ موجود تھے، کسی سے بھی اُنہوں نے بدلہ نہیں لیا، ہاں اُس وقت تک جب تک حضرتِ علی سے باتیں چلتی رہی ہیں اِن لوگوں کی رائے یہ تھی اور حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کی رائے وہ تھی۔