ماہنامہ انوار مدینہ لاہور نومبر 2006 |
اكستان |
|
چار سدہ سے عمر زئی جاتے ہوئے ایک آبادی آتی ہے مجھے اُس کا نام یاد نہیں رہا وہاں سے گزرتے ہوئے میرے شریک ِسفر پٹھان ساتھی نے بتلایا کہ یہاں کے لوگ برملا جھوٹی قسمیں کھا کر چاند دیکھنے کی گواہی دیتے ہیں۔ نیز بنوں اور اُس کے اطراف میں اوباش نوجوانوں کی ٹولیاں عید کے اعلان کے لیے شرمناک طریقے اختیار کرنے کے بعد علماء پر چڑھائی کر کے جبراً رؤیت ہلال کا اعلان کراتی ہیں۔اس صورت ِ حال کے اصل ذمہ دار یہ غنڈہ عناصر ہوتے ہیں مگر بدنامی بلاوجہ بے بس علماء کے سر آجاتی ہے۔ اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ سال کے باقی مہینوں میں خوف ِخدا سے عاری یہ سرکش ٹولہ کہیں سرگرم نظر نہیں آتا اور رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر ہی عمل کررہا ہوتا ہے نیز رمضان المبارک عید اور بقر عید کے چاند اِن کے یہاں ہمیشہ ٢٩ ہی کے ہوتے ہیں شاید ہی کبھی ٣٠ کا ہوا ہو۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ سعودیہ میں عید نہیں ہوئی ہوتی اور یہ لوگ صوبہ سرحد میں رؤیت ثابت کردیتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون کسی نے سچ کہا کہ ''جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے'' ۔اگر واقعی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اِن کو چاند نظر آجاتا ہے تو پھر صوبہ سرحد ہی میں ہر سال دو دو عیدیں کیوں ہوتی ہیں سب ہی ایک دن عید کیوں نہیں مناتے بلکہ اِس برس تو صوبہ سرحد میں تین عیدیں منائی گئی ہیں۔ اس صورتِ حال نے وہاں کے عوام کو تکلیف دہ صورتِ حال سے دو چار کردیا ہے۔ اس موقع پر بعض لوگوں نے رؤیت ہلال کمیٹی کو بھی بلا جواز تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ نا خوشگوار صورتِ حال نے رؤیت ہلال کمیٹی کی اہمیت وافادیت کو مزید اُجاگر کردیا ہے۔ ان کے فیصلوں کو تسلیم کرنے والے صوبہ پنجاب اور سندھ میں کوئی قابل ذکر ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا، سب ایک ہی دن ہنسی خوشی اطمینان کے ساتھ اپنے مذہبی اُمور انجام دیتے ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمود صاحب قدس سرہ العزیز بھی صوبہ سرحد کی اِس صورتحال سے نالاں تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ انہوں نے ہم کو اپنے وزیر اعلیٰ ہونے کے زمانہ کا واقعہ سنایا کہ'' میں عید منانے کے لیے بذریعہ سڑک پشاور سے ڈیرہ اسماعیل خان روانہ ہوا تو میں نے ڈرائیور کو ہدایت کی کہ راستہ میں بنوں ،کوہاٹ وغیرہ کسی بھی مقام پر ہرگز گاڑی نہ روکنا یہ ظالم عید منا رہے ہیں ہمارا بھی روزہ تڑوا دیں گے۔ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بے خوف وسرکش عناصر کو لگام دے تاکہ آئندہ اِس جیسے سنگین حالات کا سد باب ہوسکے اور عوام سکون واطمینان کے ساتھ اپنے مذہبی اُمور انجام دے سکیں۔ نیز اس