ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2004 |
اكستان |
|
بربادی پر ماتم نہیں کرتے کہ تمہارا خداتم سے روٹھا ہوا ہے ۔اُس نے تمہاری بد اعمالیوں سے ناراض ہو کر اپنی دی ہوئی نعمتیں تم سے چھین لی ہیں ۔تم آقا سے غلام ،حاکم سے محکوم ،غنی سے مفلس ،زردار سے بے زر بلکہ بے گھر ہو چکے ہو، تمہارے ایمان کا چراغ ٹمٹما رہا ہے اور تمہارے اعمالِ صالحہ کا پھول مرجھا رہا ہے اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ تم غافل ہو۔ پس کیا اس محرومی اور مغضوبی کی حالت میں بھی تم کو حق پہنچتا ہے کہ ربیع الاول میں آنے والے دین ودنیا کی نعمتیں لانے والے رحمة للعا لمین ۖ کی آمد کی یاد گار میں خوشیاں منائو ، بقول علامہ ابوالکلام آزاد : ''کیا موت اور ہلاکی کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ زندگی اور روح کا اپنے کو ساتھی بنائے ،کیا ایک مردہ لاش پر دنیا کی عقلیں نہ پہنچیں گی اگر وہ زندوں کی طرح زندگی کو یاد کرے گی ؟ہاں یہ سچ ہے کہ آفتاب کی روشنی کے اندر دُنیا کی کے لیے بڑی ہی خوشی ہے لیکن اندھے کو کب زیب دیتا ہے کہ وہ آفتاب کے نکلنے پر آنکھوں والے کی طرح خوشیاں منائے''۔ پس اے غفلت شعارانِ ملت !تمہاری غفلت پر صدفغاں وحسرت اور تمہاری سرشاریوں پر صد ہزار نالہ وبکا ، اگر تم اس ماہ مُبارک کی اصلی عزت وحقیقت سے بے خبر ہوا ور صرف زبانوں کے ترانوں اور دیوار کی آرائشوں اورروشنی کی قندیلوں ہی میں اس کے مقصد یاد گاری کو گم کردو ،تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مبارک مہینہ اُمت مسلمہ کی بنیاد کا پہلا دن ہے۔ خداوندی بادشاہت کے قیام کا اولین اعلان ہے۔ خلافت ارضی ووراثت الٰہی کی بخشش کا سب سے پہلا مہینہ ہے ۔ پس اس کے آنے کی خوشی اور اس کا تذکرہ ویاد کی لذت ،یہ اس شخص کی رُوح پر حرام ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے اندر اس پیغام ِالٰہی کی تعمیل واطاعت اور اُسوہ حسنہ کی پیروی کے لیے کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔ ٭٭٭ بقیہ : ماہِ صفر احادیث مبارکہ کی روشنی میں لہٰذا یہ یہودو ہنود کی خوشی کادن تو ہو سکتا ہے مسلمانوں کا نہیں۔مسلمانوں کا اِسے بطورخوشی منانا''ناجائز وحرام'' ہے۔مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اس یہودیانہ رسم کو اپنا کر کہیں حضور اکرم ۖ کے مرض ِوفات کا جشن تو نہیںمنا رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ٭٭٭