ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2003 |
اكستان |
بات فقط اسی تک رہتی کہ وہ اپنے طبعی رجحان سے یا مثبت دلائل سے خواہ وہ کتنے ہی کمزور ہوتے مولانا مدنی کو شیخ الہند کا جانشین نہیں سمجھتے تو قابلِ برداشت تھا لیکن جب وہ اپنے دعوے کے اثبات کے لیے سرے سے باطل دلائل کا زور لگائیں تو یہ بات کسی بھی اعتبار سے قابل برداشت نہیں۔ اپنے اس دعوٰی پر جو دو باطل دلیلیں ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے دی ہیں وہ یہ ہیں : (١) ہندوستان واپسی پر حضرت شیخ الہند نے اپنے خطبات کی تحریر مولانا مدنی سے نہیں بلکہ مولانا شبیر احمد عثمانی سے کرائی (خطبہ علی گڑھ کی بھی اور دوسرے سالانہ اجلاس جمعیت علمائے ہند کے خطبہ صدارت کی بھی ) ۔ (٢) دوسرے سالانہ اجلاس میں امام الہند کا خطاب دے کر جس شخص کی بیعت پر علماء کو آمادہ کرنے کی بھر پور کوشش حضرت شیخ الہند نے کی وہ بھی مولانا مدنی نہیں مولانا ابو الکلام آزاد تھے۔ اور شیخ الہند ابوالکلام آزاد کو امام الہند کیوں بنانا چاہتے تھے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اس کی دووجہیں لکھتے ہیں : (١) مولانا آزاد نے ١٩١٢ء سے الہلال اور پھر البلاغ کے ذریعے دعوت رجوع الی القران کا جو غلغلہ بہت زور وشور سے بلند کیا تھا اس سے حضر ت شیخ الہند بہت متاثر ہوئے تھے او رانہیں محسوس ہوگیا تھا کہ کرنے کا اصل کام وہی ہے جس کی دعوت یہ نوجوان دے رہا ہے۔ کامل اس طبقہ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے (٢) جب چار سال کی جلاوطنی اور نظربندی جھیل کر شیخ الہند واپس ہندوستان آئے تو (ابوالکلام آزاد کی گزشتہ باتوں کی وجہ سے ) انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ حالات ِوقت کی نبض پر ہاتھ ہم بوڑھوں کا نہیں اس نوجوان کا ہے۔ اور ان سب باتوں کی روشنی میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دو فیصلے صادر فرماتے ہیں : (١) ''لہٰذا تحریکِ استخلاص وطن ،تحریک خلافت عثمانیہ اور تحریکِ تجدید واحیا ء وغلبہ دین سب کے اعتبار سے حضرت شیخ الہند کے جانشین اور خلیفہ مجاز کی حیثیت مولانا آزاد کو حاصل ہے جن کے ہاتھ پر خود بیعت کرنے کی خواہش وہ اپنے ساتھ ہی قبر میں لے گئے''۔ (٢) ''راقم الحروف (یعنی ڈاکٹر اسرار صاحب )کو حضرت شیخ الہند سے ایک نہیں دوسلسلوں اور واسطوں سے نسبت کا دعوٰی ہے۔ایک بواسطہ مولانا شبیر احمد عثمانی وتحریکِ پاکستان اور دوسرے بواسطہ مولانا ابوالکلام آزاد اور سیّد ابوالاعلی مودودی اس لیے کہ مولانا آزاد کی نسبت توحضرت شیخ الہند سے بلا واسطہ اور متصل ہے ہم مولانا مودودی کا بھی خواہ مولانا آزاد سے کوئی معروف رشتہ نہ تھا لیکن اس دور کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ان کی حیثیت مولانا آزاد کے