ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
توضیح ہے۔ اس نظرئیے کی وکالت کرنے والے دیگر اشخاص میں سے انیسویں صدی کے ڈبلیو کار پینٹر( اسرائیلی مل گئے) ایف ۔آر ۔اے گلوور (انگلستان۔ آثار یہود )اور سکاٹ لینڈ کے سرکاری ماہر فلکیات سی ۔پیازی ۔سمتھ تھے جنہوںنے اہرام ِ مصر کی پیمائشوں کے بعد یہ خیال اخذ کیا کہ برطانوی گمشدہ قبائل کی اولاد ہیں ۔ ٤ ١٨٧١ء میں ایڈ ورڈ ہائن نے ''مقامی برطانوی اقوام کی گمشدہ اسرائیل سے شناخت '' لکھی جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کی ڈھائی لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں ۔امریکہ میں اس تحریک کی قیادت ڈبلیو ۔ایچ پول اور جی ڈبلیو گرین وڈ نے کی ۔(میجر ا یچ ڈبلیو جے پینٹر۔ ''کیا انگریز اسرائیلی ہیں ''۔ایم ای چرچ پریس لکھنؤ ۔١٨٨٣ء )ہندوستان میںپہلی بنگالی پیاد ہ فوج کے میجر ایچ ۔ ڈبلیو ۔سینئیر نے اینگلو ۔اسرائیلی تشہیر بڑی شدومد سے شروع کی ۔ ١٨٨٣ء میں اس نے ''کیا انگریز ا سرائیلی ہیں'' کے عنوان سے کتاب لکھی ،اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ انگریز اسرائیل کی اولاد ہیں اور خدا نے ابراہیم سے کیا گیا وعدہ پورا کر دیا ہے اور اسرائیل سے کیے گئے تمام عہد بھی پورے کرے گا ۔اینگلو اسرائیلی لٹریچر کی بھاری مقدار ''میسرز ینو مین اینڈ کمپنی کلکتہ''نے چھپوا کر ہندوستان میںتقسیم کی۔ سینئیر اس کتاب میں لکھتا ہے : خدا نے یہ واضح کر دیا ہے کہ جب تک سورج ،ستارے اور سمندر قائم ہیں اسرائیلی اس کے سامنے ایک قوم کی حیثیت میںہمیشہ رہیں گے چونکہ وہ ابھی تک گم نہیں ہوئے ۔لہٰذا اسرائیلیوں کو کرہ ارض کی ایک قوم ہوناچاہیے ۔یہ سوال قدرتی طورپر ابھرتا ہے کہ اسرائیلی کون سی قوم ہیں۔''اینگلو۔اسرائیل'' کے سرگرم حامیوں نے منطقی طورپر یہ ثابت کیا ہے کہ کرہ ارض کی تمام اقوام میںسے صرف انگریزہی تمام انعامات واکرامات کے حامل ہیںاور وہ عہد جو خدانے اپنے بندوں اسرائیلیوںکے ساتھ کیا تھا اور چونکہ خدا سچا ،وفادار اور عہد کو پورا کرنے والا ہے لہٰذا یہ عہد و اکرامات کسی غیر یہودی قوم کے حق میں نہیں جا سکتے چنانچہ یہی نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ انگریز ہی اسرائیلی ہیں اور اس سچائی کو قبول کرتے وقت ہم اسرائیل کے بارے میں_ مستقبل کی شان وشوکت پر یقین رکھتے ہیں ۔ہمیں پتا چلتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آمد اول ،یروشلم ،بابل،نینو ا،مصر موآب اور یہود ا کی تباہی کی پیش گوئی لغوی طور پر پوری ہوچکی ہے اور اسرائیل کو ملنے والی تمام سزائیں بھی معنوی طورپر پوری ہوچکی ہیں تو اسرئیل کی شان وشوکت کے تمام عہد بھی معنوی انداز میںلیے جانے چاہییں اور ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ (نظریہ )اس روحانی تشریح کے مطابق ہے جو کلیسانے پیش کیا ' '۔ ٥ صفحہ نمبر 49 کی عبارت ٤ ''سوشیا لو جیکل ریویو ''لندن ۔مارچ ١٩٦٨ء ۔اور ''انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجنز اینڈ ایتھکس ''جلد ١۔اینگلو اسرائیل ازم ۔صفحہ نمبر٢٨٢) ٥ سینئیر ۔صفحہ نمبر ٦١۔٦٢