ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
میں پنہاں ہیں ،نیز یہ کہ ترجمہ میں جن مطالب کو پیش کیا جاتا ہے وہ دراصل مترجم کی قرآن فہمی کا ماحصل ہوا کرتے ہیں ،چنانچہ ہر انسانی کوشش کی طرح ترجمہ قرآن میں بھی غلطی ،کوتاہی اور نقص کا امکان باقی رہ جاتا ہے اس بنا ء پر قارئین سے ہماری درخواست ہے کہ انہیں اس ترجمہ میں کسی مقام پر کوئی فروگزاشت نظر آئے تو مجمع الملک شاہ فہد کو ضرور مطلع فرمائے تاکہ آئندہ اشاعت میں اس کی اصلاح کی جاسکے''۔ دونوںمیں فرق : یہ دونوں ترجمے اور تفسیری حواشی اگرچہ وہاں سے چھپے ہیں مگران میں تین فرق نہایت واضح ہیں : پہلا فرق : تفسیر عثمانی کوادارہ نے جس اعتماد کے ساتھ شائع کیاہے تفسیر صلا ح الدین پر ادارے کو وہ اعتماد حاصل نہیں ہو سکا اور اس بد اعتمادی کی پردہ پوشی کے لیے یہ عذر تلاش کیا ہے کہ انسان سے غلطی ،کوتاہی اور نقصان کاامکان ہر وقت ہے، اتنی بات تو صحیح ہے کہ ایک انسان سے خطا کا امکان ہے مگر جب اس انسان کی کوشش اہل فن علماء ومفسرین کے ہاں پہنچ کرتلقی بالقبول اور شرف قبولیت حاصل کرلے تویہ خطرہ ختم ہوجا تا ہے ۔تفسیر عثمانی جب سے لکھی گئی اس کو علماء ومفسر ین میں وہ قبولیت عامہ نصیب ہوئی کہ اس زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور بڑے بڑے اہلِ فن مفسرین سے سُناہے کہ یہ تفسیر کیا ہے گویا دریا کو کوزہ میں بند کر دیا، کسی آیت کے بارے میں بیس پچیس بڑی بڑی تفاسیر کا مطالعہ کرنے کے بعد تفسیر عثمانی کا مطالعہ کریں تو واقعتا ان سب تفاسیرکا خلاصہ نہایت جچے تلے لفظوں میں ''تفسیر عثمانی ''میں مل جا تا ہے ہم نے خود بھی اس کا تجربہ کیاالحمد اللہ اس بات کو سو فیصد صحیح پایا، آپ بھی تجربہ کرکے دیکھ لیں انشا ء اللہ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے۔قرآن پاک سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ والوں کے یہاں کسی کی مقبولیت عنداللہ مقبولیت کی دلیل ہے اس کے برعکس اس جدید تفسیر کا صرف ایک ہی ایڈیشن پہلے چھپا اسے اپنے فرقہ جس کی تعداد دوفی دس ہزار بھی نہیں اس میں بھی مقبولیت نصیب نہ ہو سکی اس لیے اس پر وہ اعتماد کب کیا جاسکتاہے۔ دوسرا فرق : تفسیر عثمانی پہلے بھی کئی مرتبہ چھپی اور کئی زبانوں میں چھپی پھر جب اس کو سعودی حکومت نے چھپوایا تو من وعن اسی طرح چھپوایا اس میں کسی قسم کی کوئی قطع برید نہ کی مگر اس جدید حاشیہ میں کئی جگہ غیر مقلد ین نے قطع برید