ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
کلماتِ بیعت : بیعت کے وہ کلمات جو '' بیعتِ عقبہ '' کے موقع پراحادیث میں صلح حدیبیہ کے بعد قرآن کریم میں آئے ہیں ان ہی پر آپ بیعت لیا کرتے تھے اگر کسی جگہ کسی غیر شرعی کام کا رواج ہوتا تھا تو اسے ختم کرنے کے لیے بیعت لیا کرتے تھے جیسے بنگال میں'' ساڑی'' کا رواج ختم کرنے کے لیے اس کے مناسب کلمات کا اضافہ فرمادیا تھا۔ حضرت عمر بن العاص، حضر ت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بیعت میں اور الفاظ تھے ،بعض دفعہ بیعت توبہ بھی ہوئی ہے اس سلسلہ میں پہلی اُمتوں میں ایک قاتل کے بیعت توبہ کا ذکر آتا ہے اور غزوۂ تبوک میں جو لوگ نہیں گئے تھے ان کے بارے میں بھی آتاہے کہ آنحضرت ۖ نے انھیں بیعت فرمایا واستغفرلہم فبا یعھم واستغفرلہم۔(بخاری ص ) ان روایاتِ صحیحہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں جو احادیث مقدسہ میں آئی ہیں اور یہ ''بیعتِ جہاد ''کے علاوہ ہیں۔ بیعت تسلیم خلافت بھی چلی آ رہی ہے وہ سب صحابۂ کرام کا طریقہ رہی ہے حدیث کی سب کتابوں میں یہ روایتیں موجود ہیں۔ بیعت کی اصل : قرآن کریم میں جہاد کے سوا، بیعت کاذکر سورۂ ممتحنہ میں آتاہے۔ نیز اس قاعدہ سے کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتاہے خصوص مورد کا نہیں ہوتا ۔(بخاری شریف ص٦٤٨وص٦٧٨) ٢ آیت مبارکہ ان الذین یبایعونک میں رسول اللہ ۖ سے بیعت کی فضیلت کا ذکر ہے ۔ احادیثِ مبارکہ میں جہاد کی فرضیت سے پہلے بھی بیعت کا ذکر آتا ہے ۔ہجرت سے قبل کم ازکم تین بار ایسا ہوا ہے کہ مدینہ منورہ میں پہنچے ہوئے صحابۂ کرام کی تبلیغ سے جو حضرات داخلِ اسلام ہوئے وہ حج کے موقع پر مکہ معظمہ آئے اور رسول اللہ ۖ سے منیٰ کے مقام عقبہ پر رات کی تنہائی میںملے ،یہ بیعت نیک کاموں کے لیے تھی ان میں ایک صحابی حضرت عبادہ ہیں وہ اس وقت کے بیعت کے کلمات بھی ارشاد فرماتے ہیں : ٢ بخاری شریف کے صفحہ٦٤٨ کے حوالہ سے حضرت کا اشارہ اس حدیث کی طر ف ہے جس کو حضرت عبداللہ بن معقل نے حضرت کعب بن عجرہ سے نقل کیا ہے وہ فدیہ کا ذکر فرمانے کے بعد حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں فنزلت فی خاصة وھی لکم عامة فدیہ کے متعلق یہ کلمات اگرچہ خاص ان کے متعلق ہیں مگر باقی اُمت کے لیے بھی عمومیت کے ساتھ فدیہ کا یہی حکم ہوگا اور ص٦٧٨ سے اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں ایک صاحب نے نبی علیہ السلام کی خدمت میں آکر اپنے سے صادر ہونے والے ایک گناہ کی تلافی کے بارے سوال کیا تو قرآن پاک کی آیت واقم ا لصلٰوة طرفی النہار .....الآیة نازل ہوئی تو ان صاحب نے نبی علیہ السلام سے دریافت کیا اَلِی ہذہ قال لمن بھا من امتی یعنی یہ آیت خاص میرے ہی لیے ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا جو بھی میری اُمّت میںسے ایسا کرے اس کے لیے بھی یہی ہے ۔محمود میاں غفرلہ