ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
وتبتل الیہ تبتیلا (قرآن حکیم )آپ کا عمل اس آیت کی تفسیر تھا : ایک دفعہ اہلیہ محترمہ نے صاحبزادی کے نکاح کے سلسلے میں انتظام کرنے کی طرف توجہ دلائی اثناء گفتگو زبا ن سے یہ جملہ بھی نکلا کہ کیا آپ کو کوئی تعلق نہیں ہے ؟ جواباً ارشاد فرمایا ''مجھے سوائے اپنے اللہ کے اور کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے بندوں سے صرف اس قدر تعلق ہے کہ میں قیامت میں مواخذہ سے بچ جائوں۔'' اس کے بعد ان کا عقد نہایت درجہ سادگی سے کیا جیسے رسول کریم علیہ الصلٰوةوالسلام اور صحابۂ کرام کا طریق تھا۔ یہ تو آپ نے اہلیہ محترمہ سے دل کی کیفیت بتلائی اور عمل یہ تھا کہ ان صاحبزادی ''ریحانہ'' صاحبہ کو پیار میں کبھی چاند اور کبھی سورج فرماتے تھے یہ آپ کی پہلی ہی صاحبزادی تھیں جن کاعقد ہو رہا تھا ان سے اتنا زیادہ تعلق تھا کہ جیل سے بھی ان ہی کے نام بیشتر خطوط اور کبھی تحائف کے پارسل ارسال فرماتے رہتے تھے۔(ملخصاً از واقعات ص٧٥) اپنے لیے تعظیماً کھڑا ہونا سخت ناپسند تھا اگر لوگ نہیں مانتے تھے تو آپ اسی طرح کھڑے رہتے تھے اور لوگو ں کو بٹھا کر پھر بیٹھتے تھے ۔رسول اللہ ۖ کے اس ارشاد سے استدلال فرمایا کرتے تھے لا تقوموا لی کما یقوم الا عاجم۔ بدن دبوانا پسند نہیں تھا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جب آپ زیادہ تھکے ہوئے ہوتے تھے توخصوصاً منع فرماتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میری نظر سے کوئی حدیث ایسی نہیں گزری جس میں رسول اللہ ۖ سے بدن دبوانا ثابت ہو۔ مرض وفات کے دوران کمزوری کا یہ عالم ہوگیاتھا کہ بغیر سہارا بیٹھ نہ سکتے تھے مگر غذا کے وقت تکیہ سے ضرور علیحدہ ہو جاتے تھے سب اہلِ خانہ کا اصرار ہوتا کہ ٹیک ہی لگاکر کھانا تناول فرمالیں مگر صا ف فرمادیتے نہیں بھائی یہ سنت کے خلاف ہے اور پھر ٹیک لگائے بغیر غذا تناول فرماتے۔(واقعات ص٧٤ملخصاً) مولانا فرید الوحیدی صاحب جو حضرت مدنی رحمہ اللہ کے پوتے ہوتے ہیں (ان کے والد مولانا وحید احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ حضرت کے سگے بھتیجے تھے ۔(حضرت مولانا صدیق احمد رحمة اللہ علیہ کے صاحبزاد ے تھے جو حضرت کے بڑے بھائی تھے )اور مولانا وحید اسارت مالٹا میں بھی ساتھ رہے تھے )تحریر فرماتے ہیں : خواتین کو بیعت کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ ایک لمبا کپڑا عمامہ وغیرہ کا لے کر ایک سراخود پکڑتے اور دوسرا سرا پس پردہ سے خاتون پکڑتیں پھر کلماتِ بیعت تلقین فرماتے۔ خواتین کی درخواستیں اور پریشانیاں عموماًاہلِ خانہ کے واسطے سے سنتے اور جوابات ،دعائیں ،مشورے یا تعویذ دیتے۔ دیہاتی عورتیں کبھی کبھی اہلِ خانہ کی نظر سے بچ کر مطالعہ گاہ تک پہنچ جا تی تھیں تو آپ دوسری طرف رخ پھیر لیتے تھے اور موجود خادم بچہ اہلیہ محترمہ یا صاحبزادیوں کو آواز دیدیتے تھے اور یہ صورت ختم ہو جاتی تھی (واقعات ص٧٤و ص ٧٥ملتقطا)