ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
انصاف کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود اس کے قیام میںانگلستان اور یورپ کی عیسائی طاقتوں نے بھر پور حصہ لیا اور اس کی خوب مدد کی اور پھر قیام کے بعد اس کا عمل مسلسل جارحانہ ،ظالمانہ اورغیر منصفانہ ہے لیکن پھر بھی مذکور ہ عیسائی طاقتیں ا س کی محافظ اور پستیبان چلی آرہی ہیں اور شرق اوسط کا یہ ناسور جسے ختم کرنے کی شدید ضرورت تھی عیسائی یہودی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پھیل اوربڑھ رہا ہے اور اس کی خطرناکی میں دن بددن اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ (نعوذ باللہ منھا) یہ بین القوسین عبارت دوسسرے ایڈیشن سے حذف کردی گئی ہے۔(غور کرو پہلا ایڈیشن صفحہ١٥٠ حاشیہ٣ بمقابلہ دوسرا ایڈیشن صفحہ ٣٠٨ حاشیہ ٤) پڑھے لکھے اور سنجیدہ غیر مقلدین کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ یا تو یہ شورا شوری اور یا یہ بے نمکی ۔پہلے ایڈیشن میں قرآنی آیات کی تفسیر میں یہوداور حکومت اسرائیل کی اتنی زبردست مخالفت اور دوسرے ایڈیشن میں سب کچھ غائب ،کیا قرآن بدل گیا ہے کہ یہ تفسیر حذف کردی گئی یا جناب کی یہود دشمنی ''یہود دوستی ''سے بدل گئی ہے کہ اب ان کے خلاف ایک فقرہ توکجا ایک لفظ بھی برداشت نہیں ،کیا ا ب حکومت اسرائیل کاظلم ختم ہو گیا ،کیا اب یہ ناسور صحیح ہو گیا ،تلون مزاجی کی بھی حد ہوگئی ہے۔ (٣) روضۂ نبوی : آیت : وماارسلنامن رسول الا لیطاع باذن اللّٰہ ولوانھم اذ ظلموآ انفسھم جآء وک فاستغفروا اللّٰہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللّٰہ توابا رحیما۔(النساء : ٦٤) ترجمہ : اور ہم نے ہرہر رسول کو صرف اس لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے اور اگر یہ لوگ جب انہوںنے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آجاتے او ر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لیے استغفار کرتاتو یقینا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔ تفسیر : مغفرت کے لیے بارگاہ الہٰی میں ہی توبہ واستغفار ضروری اور کافی ہے لیکن یہاں ان کو کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتا ،یہ اس لیے کہ چونکہ انہوں نے فصل ِخصومات کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ کا استخفاف کیا تھا اس لیے س ازالے کے لیے آپ کے پاس آنے کی تاکید کی ۔ (ظاہر بات ہے کہ اپنے پس منظر کے لحاظ سے بھی اورالفاظ کے اعتبار سے بھی اس ہدایت کا تعلق آپ کی زندگی سے تھا ۔لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ آج بھی روضہ نبوی پر استغفار کے لیے حاضری ایسی ہے جیسے آپ کی زندگی میں تھی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ تف ہے ایسے فہم قرآن پر اور ہزار بار توبہ ہے ایسی تفسیرسے)۔