ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
کرکے چھپوانے کے لیے دیا اور اسی وجہ سے چھاپنے والوں کے دل میں اس کا اعتماد بحال نہ رہ سکا ،اس قطع و برید کی دس مثالیں اس مضمون میں پیش کی جائیں گی انشاء اللہ ۔ تیسرا فرق : تفسیر عثمانی جب کوئی حاجی صاحب لاتے ا گر وہ خود پڑھے ہوئے ہوتے تو خود اس سے استفادہ کرتے یا مسجد کے امام کو دے دیتے وہ اس تفسیر کا درس شروع کر دیتے اور پورا محلہ یا پورے گائوں والے قرآنی علوم ومعارف سے مستفید ہوتے اور یہی شاہ فہد حفظہ اللہ کامقصد تھا لیکن اس سال جب حاجی صاحبان یہ (نئی تفسیر والا )قرآن پاک لے کر آئے تو بہت سے تو راستے میں جہاز میں یا کسی ہوٹل میں چھوڑ اآئے کیونکہ اس محشی کا بحیثیت مفسر کہیں تعارف ہی نہیں تھا اور جو ساتھ لائے انھو ںنے جب پہلے ہی دو صفحات کا حاشیہ پڑھا کہ جو امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی تووہ پریشان ہوکر علماء کے پاس آئے کہ اس حاشیہ کے مطابق نہ تو صرف ہم بلکہ کروڑوں مسلمان بے نما زی ہیں علماء نے سختی سے منع کر دیا کہ اس کا مطالعہ نہ کرو۔میں جب بھی کسی شہر میں جاتا ہوں توخاص طورپر پوچھتا ہوں کہ اس دفعہ حاجی صاحبان جو قرآن پاک لائے ہیں اس کے مطالعہ کا کیا حال ہے؟ تو عموماً یہی پتہ چلتا ہے کہ اگر دس ہزار حاجی صاحبان یہ قرآن پاک لائے ہیں توبمشکل دس ہزار میں سے ایک نے اسے پڑھا ہوگا باقی حاجی صاحبان خود بھی پریشان ہیں کہ اس تفسیر کا کیا کریں ،گھر رکھتے ہیں تو گھر میں لڑائی جھگڑے کا خطرہ ہے،مسجد والے بھی نہیں رکھنے دیتے کہ خواہ مخواہ مسجد اختلافات کا اکھاڑہ بن جائے گی بعض علماء نے اکٹھے کرکے الماریوں میں مقفل کردئیے ہیں حالانکہ شاہ فہد حفظہ اللہ کا قطعاً یہ مقصد نہ تھاکہ قرآن اس لیے چھاپو کہ نہ کوئی اس میں تلاوت کرے نہ اس کاترجمہ پڑھے ،نہ حاشیہ پڑھے بلکہ اسی بات میں پریشان رہے کہ اس کا کیا کیا جائے۔ اس سے ایک فرقہ شاذہ کی ضدتو پوری ہوگئی مگر اس سے استفادہ اور افادہ دوفی دس ہزار بھی نہ ہو سکا۔ اب اس جدید تفسیر کے پہلے ایڈیشن جس پر پتہ یوں ہے ''مکتبہ دارالسلام الریاض سعودی عرب، لاہور پاکستان ''اور دوسرے ایڈیشن جس پر پتہ یوں ہے'' شاہ فہد پرنٹنگ کمپلیکس ''جو حاجی صاحبان کو دیا گیا ہے کے فرق کی صرف دس مثالیں ملاحظہ فرمائیں : (١) حکومت اسرائیل : آیت : ضربت علیھم الذلة این ما ثقفوا الا بحبل من اللّٰہ وحبل من الناس الخ ترجمہ : یہ ہر جگہ ہی ذلیل ہیں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں (تفسیر حاشیہ ٢/٨٢)