ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
باب : ٩ قسط : ٩ ١ دینی مسائل٭نماز کی شرطوں کا بیان (٥) استقبالِ قبلہ : قبلہ کی طرف منہ کرنے کو استقبالِ قبلہ کہتے ہیں۔نماز کی صحت کے لیے شرط ہے کہ نماز پڑھنے والے کا منہ قبلہ کی طرف ہو جبکہ وہ اس پرقادر ہو۔ استقبال ِقبلہ کی ضروری حد کیا ہے ؟ : جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لیے عین کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہتِ کعبہ کا استقبال ہے عین کعبہ کا نہیں۔ جہتِ قبلہ کے استقبال کا مطلب یہ ہے کہ ایک خط ِمستقیم ہو جو کعبہ پر گزرتا ہو ا جنوب وشمال کی سمت میں ہوا ور نمازی کے وسطِ پیشانی سے ایک خط ِ مستقیم نکل کراس پہلے خط سے اس طرح تقاطع کرے (یعنی دونوں ایک دوسرے کو کاٹیں ) کہ اس سے تقاطع کے موقع پر دو زاویہ قائمہ بن جائیں وہ قبلہ مستقیم ہے ۔ اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ اس کی وسط پیشانی سے نکلنے والا خط تقاطع کرکے زاویہ قائمہ پیدا نہ کرے بلکہ حادہ(Acute) یامنفرجہ(Obtuse) پیدا کرے لیکن وسط پیشانی کو چھوڑ کر پیشانی کے اطراف میں کسی طرف سے نکلنے والا خط زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ ''انحراف قلیل'' ہے اس سے نماز صحیح ہو جائے گی ۔او ر اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی ایسا خط نہ نکل سکے جو خط مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو وہ'' انحراف کثیر'' ہے اس سے نماز نہ ہو گی ۔اور علمائے ہیٔت وریاضی نے قلیل و کثیرانحراف کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پینتالیس درجہ تک انحراف ہو تو قلیل ہے اس سے زائد ہو تو کثیر اور مفسد ِنماز ہے۔ اس کی آسان تعبیر یہ ہے کہ انسان کے چہرہ کاکوئی ذرا سا ادنیٰ حصہ خواہ وسط چہرہ ہو یا دائیں بائیں جانب کا بیت اللہ کے کسی ذرا سے حصے کے ساتھ مقابل ہو جائے او ر فن ریاضی کی اصطلاحی عبارت میںیہ ہے کہ عین کعبہ سے پینتالیس درجہ تک بھی انحراف ہو جائے تو استقبال فوت نہیں ہوتااور نماز صحیح ہو جاتی ہے ۔اس سے زائد انحراف ہو تو استقبال