ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
ہوئی،تھوڑی دیر کے بعد سید امین عاصم صاحب کے بھانجے زادہ سید احمد جعفری آئے اور کہا کہ سید صاحب نے کہا ہے کہ ہم نے تیرے چھڑانے کے لیے بہت کوشش کی مگر چونکہ شریف بہت خفا ہے اس لیے کم از کم آٹھ دس دن تک تجھ کو قید خانہ میں رہنا پڑے گا میں نے کہا کہ چونکہ میں مدینہ منورہ سے فقط مولانا کی خدمت کے لیے نکلا ہوں اس لیے مجھ کو خدمت میں رہنا ضروری ہے۔ تفصیل کے ساتھ واقعات ''سفر نامہ شیخ الہند '' اور نقشِ حیات '' میں تحریر ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ نے حضرت مدنی کے اس اخلاص کو قبول فرمایا اور ''مالٹا'' میں قید میں بھی ساتھ ساتھ رہنا نصیب فرمادیا ۔اور آپ ہی کی طرح کچھ اور حضرات کی بھی یہی خواہش تھی وہ بھی حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے ساتھ مالٹا پہنچا دئیے گئے ۔ان میںسے اس وقت بھی بفضل خدا حضرت مولانا عزیر گل صاحب متّع اللہ المسلمین بطول بقائہ سخا کوٹ میں تشریف فرما ہیں ۔ ١ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے اپنی غیر موجودگی میں اس کارِ عظیم کے لیے حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری قدس سرہ کو انتخاب فرمایا آپ ان کی نیابت کے فرائض انجام دیتے رہے حتی کہ دنیا سے رخصت ہو گئے جب آپ کی وفات ہوئی تو حضرت شیخ الہند مالٹا میں قید تھے۔ جانشینِ شاہ عبدالرحیم صاحب مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائپوری رحمھما اللہ رحمة واسعة نے لاہور میں صوفی عبدالحمید صاحب مرحوم کے یہاں قیام کے دور ا ن بیان فرمایا کہ ہم سے حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب نے بوقت وفات ارشاد فرمایا کہ جب حضرت شیخ الہند مالٹا سے رہا ہو کر تشریف لا ئیں تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دست بستہ عرض کرنا کہ ہم ہر خدمت کے لیے تیار ہیں ۔(حامد میاں غفرلہ) یہ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے خاندانی ابتدائی تعلیمی وسیاسی اور ابتدائی سلوک و تصوف کے حالات تھے۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کا تعلق مع اللہ، اتباعِ سنت اور تبحرِ علمی : راقم الحروف نے جب سے ہوش سنبھالا حضرت اقدس نور اللہ مرقدہ سے یہی سنا کہ آپ دوباتوں پر سب سے زیادہ زور دیتے ایک تعلق مع اللہ پر دوسرے اتباعِ سنت پر اور اپنی تقریر و مواعظ میں احادیث صحیحہ بیان فرماتے تھے اور علماء سے یہی فرماتے تھے کہ صحیح احادیث کاذخیرہ اتنا زیادہ ہے کہ کمزور یاغلط اور بے سند روایات کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ان تینوں باتوںپر عمل مشکل ہے ۔پہلی دو چیزوں پر عمل تو خدا کے خاص ہی بندے کر سکتے ہیں ورنہ دامنِ استقامت چھوٹ چھوٹ جاتا ہے اور تیسری بات وسعتِ علمی چاہتی ہے ۔ ١ ١٦ربیع الثانی ١٤١٠ھ ١٦نومبر١٩٨٩ء بروز جمعرات حضرترحلت فرماگئے ۔محمود میاں غفرلہ