ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
بیعت کی حدیث : (اخبرنی ) ابوادریس عائذ اللّٰہ ان عبادة بن الصامت من الذین شھد وابد رامع رسول اللّٰہ ۖ ومن اصحابہ لیلة العقبة اخبرہ ان رسول اللّٰہ ۖ قال وحولہ عصابة من اصحابہ تعالوا بایعونی علیٰ ان لا تشرکوا باللّٰہ شیئا ولا تسرقوا ولا تزنوا ولا تقتلوا اولادکم ولا تأ توا ببھتان تفترونہ بین ایدیکم وارجلکم ولا تعصو نی فی معروف فمن وفی منکم فاجرہ علی اللّٰہ ۔ حضرت عبادة ہی سے بخاری شریف میں اس سے آگے دوسری حدیث شریف میں آتاہے : انی من النقباء الذین بایعوا رسول اللّٰہ ۖ وقال بایعناہ علی ۔ (الحدیث) ۔ (بخاری شریف ص٥٥٠) حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ۖ سے ایک موقع پر خود رسول اللہ ۖ کی تعریف ان کلمات سے کی تھی : انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتقری الضیف وتعین علی نوائب الحق۔ آپ صلۂ رحمی فرماتے ہیں اور ضعیف وبے روز گار آدمی کا بوجھ اُٹھا لیتے ہیں ۔مہماں نوازی فرماتے ہیں اور آفات سماویہ کے مصیبت زدگان کی امداد فرماتے ہیں۔ اور بخاری شریف ہی میں جو ارِابی بکر رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں ابن الدَّغِنَہ کے الفاظ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعریف میں_ بعینہ یہی آتے ہیں اس سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ ا ن کی طبیعت مبارکہ نے رسول کریم علیہ الصلاة والتسلیم سے کامل ترین مناسبت پائی تھی ۔معلو م ہوتاہے کہ یہ اوصاف اوصافِ کمالیہ کی جڑ ہیں باقی اخلاقِ حسنہ پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔یہ نظریہ کفار میں بھی شاید تعلیمات انبیاء کرام کی بقایا میں چلا آرہا ہو جسے اسلام نے بھی درست قرار دیا اور اگر چودھویں صدی میں اپنی رسائی کے مطابق ان محاسنِ کریمہ کی ایسی جامع شخصیت دیکھنی چاہیں جس میںیہ اوصاف کمال درجہ کے پائے جاتے ہوں تو وہ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کی شخصیت ہے۔ اسی لیے حضرت مولانا احمد علی صاحب لاہوری قدس سرہ قطب ارشاد پاکستان فرماتے تھے کہ ''میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ دنیا میں حضرت مدنی قدس سرہ جیسا کوئی بزرگ جامع کمالات نہیں ہے۔''اور کبھی وہ یہ جملہ ایک تمہید