ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
کی وعید قرآنی اہلِ ایمان کے اندر کپکپی طاری کرنے کے لیے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔ نوٹ : جس طرح اہلِ حدیث کے بڑے بھائی اہلِ قرآن کہتے ہیں کہ اہلِ حدیث کے مدارس میں احادیث کے مقابلہ میں آیات قرآنی کورد کیا جاتاہے اور قرآن کا مذاق اڑایا جاتاہے اس لیے ان مجالس میںبیٹھنا سخت گناہ ہے اسی طرح اس مفسرنے جوش میں آکر فقہ کو قرآن وحدیث کے مخالف قرار دیا ہے حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں اگر سنت قرآن مخالف ہوتی تو قرآن میں کبھی اتباع رسول کا حکم نہ ہوتا ،اسی طرح اگر فقہ قرآن وحدیث کے مخالف ہوتی تو کبھی قرآن فقہا کی طرف رجوع کا حکم نہ دیتا ،جس طرح رسول کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ خد اکے خلاف باتیںکرتاہے غلط ہے کیونکہ رسول کامنصب ہی یہ ہے : وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحیکہ رسول اپنی خواہش سے دین میں کچھ نہیں کہتا وہ وہی کہتا ہے جو بذریعہ وحی اس پر آتاہے ۔اسی طرح مجتہد اور فقیہ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ قرآن وحدیث کی مخالفت کرتا ہے ان کے منصب سے جہالت کی دلیل ہے ان کا اعلان عام ہے کہ القیاس مظھر لامثبت کہ ہم قیاس سے کتاب وسنت کا پوشیدہ مسئلہ ظاہر کرکے بتاتے ہیںکوئی ازخود گھڑکربیان نہیںکرتے۔ جب یہ قرآن پاکستان میں چھپا تو مفسر صاحب نے فقہ اور مقلد ین کو گویا کافروں سے ملا دیا اور جو غیر مقلد لڑکے حنفی مدارس میں پڑھتے ہیں ان کو منافق قرار دے کر کافروں کے ساتھ جہنم میں جمع کردیا مگر جب یہی تفسیر سعودیہ میں چھپوانی پڑی تو غیر مقلد ین پر ایسی کپکپی طاری ہوئی کہ اس میں بین القوسین عبارت کو حذف کر دیا۔ معلوم ہوتاہے کہ لاہور میں قرآن کی تشریح اور ہوتی ہے اور مدینہ منورہ میں جاکر تفسیر بدل جاتی ہے لیکن سعودی حکومت کے ڈر سے اپنا قرآنی عقیدہ چھوڑ دینا کیا قرآن اورحدیث سے بے وفائی نہیں؟ کیوں رنگ بدلتے ہوگرگٹ کی طرح اپنا اسی کو کہتے ہیں کہ گنگا پر گئے تو گنگا رام اور جمنا پر گئے تو جمنا داس ،لیکن تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ (٥) چارمصلے : آیت : لا تقم فیہ أبدا صفحہ نمبر 15 کی عبارت ترجمہ : آپ اس (مسجد ضرار ) میںکبھی کھڑے نہ ہوں تفسیر : یعنی آپ نے وہاں جاکر نماز پڑھنے کا جو وعدہ فرمایا ہے اس کے مطابق وہاں جاکر نماز نہ پڑھیںچنانچہ آپ نے نہ صرف یہ کہ نماز نہیں پڑھی بلکہ اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر وہ مسجد ڈھادی او ر اسے ختم کروادیا۔ اس سے