ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
ہمیں اس حدیث کی عملی تفسیر دیکھنے کو ملی گویا دن رات کی عام عادات میں بھی آپ سعی اتباع سنت فرماتے تھے اور شریعت کی یہی تعلیم ہے تاکہ انسان کا رہنا سہنا بھی سب عادت ہوجائے۔ ایثار و توکل کی تعلیم : آپ کی باہر کی زندگی اور گھریلو زندگی دونوں ہی سنت کے موافق اور مامور بہ میں افضل حالت پر مشتمل تھیں۔ ایک دفعہ گھر میں آپ نے بڑی صاحبزادی صاحبہ کو زیور بنوا کر دیا اور عوتوں کو زیور سے انس ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے یہ کافی دنون پہن لیا اب یہ فلاں (مستحق عورت) کو دیدو انھوں نے وہ دے دیا اس طرح آپ کی گھریلو زندگی کا ایک نمونہ سامنے آتا ہے کہ بچی کا شوق بھی پورا فرمادیا پھر ان کی تربیت بھی فرمائی کہ اپنی ہی طرح ایثار کی عادت کا سبق دیا اپنی ہی طرح فیاضی سکھائی دنیا سے بے رغبتی آخرت کے لیے سامان اور آئندہ کے لیے خدا کی ذات پر توکل کی تعلیم دی ۔ بیعت اور پردہ کی پابندی : آپ کے گھر میں کوئی آئے یا آپ خود کہیں تشریف لے گئے ہوں کبھی عورتوں سے بے پردگی نہیں ہونے دی اپنے گھر میں اور باہر عمل یکساں تھا ۔انہیں بیعت بھی اسی طرح فرماتے تھے کہ درمیان میں پردہ ہوتا تھا اور کوئی دراز کپڑا لے لیا جاتا تھا جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور دوسری جانب عورتوں میں ڈالدی جاتی تھی کہ وہ اسے پکڑ لیں۔ آپ زبان سے کلمات ارشاد فرماتے جاتے تھے اور وہ دہراتی جاتی تھیں ۔ حدیثِ پاک میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یہی نقل فرماتی ہیں : ولا واللّٰہ ما مست یدہ یدامرأ ة قط فی المبایعة مابایعھن الا بقولہ قد بایعتک علی ذالک (بخاری ص٧٢٦) بیعت میں وہی کلماتِ احکام بیشتر استعمال ہوتے ہیں جو سورۂ ممتحنہ میں آئے ہیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ شیخ کسی خاص گناہ نہ کرنے کے عہد کا بھی کلماتِ بیعت میں اضافہ کردے ۔حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ نے بنگال میں'' ساڑی'' نہ پہننے کے عہد کا اضافہ فرمایا تھا تاکہ ہندوعورتوں سے تشبہ نہ رہے۔ مرد ہو یا عورت بیعت میں کوئی ضروری نہیں کہ کپڑا پکڑا یا جائے زبانی ہی زبانی کلمات دہرانے سے بھی بیعت ہوتی ہے اور خط و کتابت سے بھی ہوتی ہے۔ اگر ایک ایک مرد بیعت ہو رہا ہو تو اس کا ہاتھ ہاتھ میں لیا جاتا ہے اور رسول اللہ ۖ نے ایسا کیا ہے۔