ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اولیاء اللہ کو (باطنی نظرسے دیکھنے کا شوق ہے اور میں حج کے موقعہ پر جب ساری دنیا سے اولیاء کرام وہاں جمع ہو جاتے ہیں مسجد میںبیٹھ کر (بنظرکشفی)دیکھتا ہوں ان میں میں نے حضرت مدنی (رحمة اللہ علیہ)جیسا کوئی نہیں دیکھا اس لیے میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں الخ سخاوت وشجاعت : حدیث پاک میں متعدد جگہ آتا ہے : کان رسول اللّٰہ ۖ اجود الناس واشجع الناس رسول اللہ ۖ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ حضرت مدنی نور اللہ مرقدہ کی سخاوت تو اس درجہ تھی کہ ہر کس وناکس جانتا ہے۔ مختصراً اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ کاد ان یکون لاء ہ نعمکہ گویا انکار جانتے ہی نہ تھے اپنے آپ قناعت سے رہنا پسند تھا اور دوسرے سائلین کے لیے سخاوت ۔ سخاوت ہی کی قسم ہے عفو و در گزر وہ اس درجہ زیادہ تھا کہ جانی دشمنوں نے بھی جب معافی چاہی تو آپ نے معاف فرمادیا ۔ ٤٦ء و ٤٧ ء میں آپ کے ساتھ جگہ جگہ غنڈہ گردی اور توہین آمیز سلوک کیا گیا تھا جو لوگ پیش پیش تھے وہ طرح طرح کے آلام کا شکار ہوئے۔ موقع ہوا تو بطور عبرت ہم چند عبرت انگیز واقعات دیدیں گے جو طبع ہو چکے ہیں اس وقت تو صرف یہ کہنا ہے کہ ایک دفعہ ایک اسی قسم کے شخص نے ہوائی اڈہ پر یہ تلاش شروع کی کہ کوئی شخص دہلی جانے والا ہے ایسا آدمی ملنے پر اس نے دریافت کیا کہ کیا وہ اس کا یہ پیغام حضرت مدنی (رحمة اللہ علیہ )تک پہنچا دے گا کہ میں وہ ہی شخص ہوں جس نے ایسا ایسا سلوک کیا تھا اور اسے اس کی پاداش میں یہ یہ سزا مل چکی ہے اب معافی چاہتا ہوں وہ پیغام لانے والاشخص حضرت استاذالاساتذہ شیخ الفقہ والادب مفتی دارالعلوم دیوبند ونائب ناظم تعلیمات و خازن دارالعلوم دیوبند مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ سے ملا اور ایسے انداز میں حال سنایا کہ و ہ بہت متاثر ہوئے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں عشاء کے قریب حاضر ہوئے واقعہ اور پیغام عرض کرکے سفارش کی کہ اسے معاف فرمادیا جائے۔ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ خاموش رہے سب اہلِ مجلس بھی بالکل خاموش رہے حضرت شیخ الادب نے کچھ وقفہ کے بعد مہر سکوت توڑی اور دوبارہ سفارش فرمائی کہ حضرت تو بڑے بڑے لوگوں کو معاف فرماتے رہتے ہیں اور معاف فرما نا جناب کی عادت ہے اس دفعہ حضرت نے جواباً فرمایامعاف کیا۔ یہی واقعہ ہے یا دوسرا اس سے ملتا جلتا واقعہ وہ کتاب ''حیرت انگیز واقعات'' میں ص٤٨ و ٥٢ پر ذکر کیا گیا ہے۔