ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2003 |
اكستان |
|
علماء نے استدلال کیا ہے کہ جو مسجد اللہ کی عبادت کے بجائے مسلمانوںکے درمیان تفریق پیدا کرنے غرض سے بنائی جائے وہ مسجد ضرار ہے اس کو ڈھادیا جائے تاکہ مسلمانوں میںتفریق وانتشار پیدانہ ہو (لیکن اس اُمّت مسلمہ میںایسے ظالم بھی پیدا ہوئے جنہوں نے تفریق کی بنیاد پرنئی نئی مسجدیں ہی نہیں بنائیں بلکہ خانہ کعبہ کے اندر چارمصلے قائم کرکے مسلمانوں کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کیے رکھا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے سلطان عبدالعزیز فرمانروائے نجد وحجاز کی جنہوں نے خانہ کعبہ سے بدعت او ر تفریق کا خاتمہ فرمایا اور مسلمانوںکوکلمہ واحدہ پر جمع کیا(رحمة اللہ رحمة واسعة)۔ نوٹ : مفسر جدید نے چار مصلوں کی وجہ سے خانہ کعبہ شریف کو مسجدضرار سے بھی بدتر قرار دے دیا ۔غیر مقلد ین کی معتبر کتاب حقیقة الفقہ میںکتاب خبیة الاکوان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سلطان پیرس کے زمانہ میںچار قاضی مقر ر ہوئے یہ قاضی حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی تھے اور ٦٦٥ھ سے اب تک تمام اسلامی ممالک میں یہ چارہی مذاہب معروف ہیں او ران چارمذاہب کے علاوہ اہلِ اسلام میںکوئی مذہب پہچانا نہیں جاتا (حقیقة الفقہ ص٨٦) او راسی کتاب میں نواب صدیق حسن خان (غیر مقلد )کی کتاب ارشاد المسائل کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نویں صدی کے اوائل یعنی ٨٠١ ھ سے بادشاہ فرح بن برقوق نے خانہ کعبہ میں چار مصلے بچھائے ۔(حقیقة الفقہ ص٨٦)یہ چارمصلے کب تک رہے؟ اخبار اہلِ حدیث امرتسر ١٠دسمبر ١٩٢٦ء صفحہ ١٣ کالم ٣ پر ہے : الحمد للہ کہ شاہ حجاز ابن سعوداید ہ اللہ تعالی کی توجہ سے حرم کعبہ میں وحدت قائم ہوگئی مکہ کا سرکاری اخبار ''ام القرٰی ''مورخہ ٢٣ربیع الثانی١٣٤٥ ھ راوی ہے کہ ''مذاہب اربعہ کے علماء نے جمع ہوکر تجویز کیا کہ حرم شریف میں جماعت ایک ہی ہونی چاہیے جس کی صورت یہ ہوئی کہ دو امام منتخب ہوئے ،یہ امام نوبت بہ نوبت نماز کرایا کریں گے مگرجماعت ایک ہی ہوگی ،یہ تجویز سلطان ابن سعود کے حضور پیش ہوئی تو انہوںنے اس کو منظور فرمالیا چنانچہ اب حرم میںایک ہی جماعت ہوتی ہے''۔اس سے معلوم ہوا کہ نہ چار مذاہب پیرس نے بنائے نہ فرح بن برقوق نے اور نہ ہی چار مذاہب کو سلطان ابن سعودنے ختم کیا ،یہ چاروں مذاہب پہلے سے آرہے تھے ان تک ہیں او رقیامت تک رہیں گے۔البتہ ان چارقاضیوں اور چار مصلوں سے یہ معلوم ہوا کہ اہلِ السنة والجماعة کے یہ چار ہی مذہب تھے چار ہی ہیں،کسی پانچویں کوا ہلِ السنة والجماعة کہلانے کا کوئی حق نہ تھا نہ ہے اورجب تک چار مصلے اورچار قاضی رہے دنیا کے کسی ملک صفحہ نمبر 16 کی عبارت میںکوئی نیا فرقہ نہ بن سکا اور ن چار مصلوں سے یہ بھی سمجھ میں آتاتھا کہ اگرچہ یہ مصلے چار ہیں مگر قبلہ سب کا ایک ہی ہے۔ ولکل وجھة ھومو لیھا فاستبقوا الخیرات۔اور یہ اختلاف ِجہات ہے ۔اسی طرح گویہ مذہب چارہیں مگر مقصد سب کا ایک ہے وہ ہے اتباع سنت نبوی اور یہ مذاہب یعنی راستوں کا اختلاف ہے منزل کا اختلاف نہیں ۔اس سے یہ