آپ مجھ پر حد جاری فرمائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، اس شخص نے دوبارہ وہی بات کہی، مگر آپ خاموش رہے، اتنے میں اقامت شروع ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے اٹھ گئے، نماز سے فارغ ہوئے تو پھر وہ شخص آپ کے پیچھے پیچھے آیا اور وہی بات کہی، تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا تم بتاؤ کہ جب تم اپنے گھر سے نکلے تھے تو کیا تم نے اچھی طرح وضو نہیں کیا تھا؟ اس شخص نے کہا کہ ہاں اے اللہ کے رسول! میں نے اچھی طرح وضو کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ہمارے ساتھ نماز میں شریک رہے؟ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں نماز میں شریک رہا، پھر اللہ کے رسول نے اس سے فرمایا کہ جاؤ! اللہ نے تمہارا گناہ بخش دیا۔
یہاں یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ حسنات سے تو صرف صغائر کی معافی ہوتی ہے، اور حد کو واجب کرنے والا گناہِ کبیرہ ہوتا ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے فرمایا کہ نماز سے وہ گناہ معاف ہوگیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصلاً وہ گناہِ صغیرہ ہی تھا جس کو آپ نے بذریعہ وحی یا قرائن سے پہچان لیا تھا، اس لئے آپ نے یہ بشارت دی کہ نماز سے تمہارا گناہ معاف ہوگیا؛ لیکن چوں کہ وہ صاحب صحابیت کے عظیم مرتبے پر فائز تھے؛ اسی لئے اس ارتکابِ صغیرہ کی وجہ سے ان پر اتنا خوف طاری تھا کہ انہوں نے آپ کے سامنے اس طرح اس کا تذکرہ کیا جیسے کہ واقعی ان سے ایسا گناہ سرزد ہوا ہے جو موجبِ حد ہے۔
(۴) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے سامنے وضو کیا، پھر فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح وضو کیا، اور فرمایا:
مَنْ تَوَضَّأَ مِثْلَ ہٰذَا الْوُضُوْئِ ثُمَّ أَتیَ الْمَسْجِدَ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ جَلَسَ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ (بخاری شریف)