بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلیٰ سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ، وَالسَّیِّئَۃُ بِمِثْلِہَا إِلاَّ أَنْ یَّتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْہَا۔ (بخاری شریف)
ترجمہ: جب بندہ اسلام قبول کرلیتا ہے اور اس کا اسلام بہتر ہوتا ہے، تو اس کے سابقہ گناہ اور برائیاں اسلام کی برکت سے اللہ معاف کردیتا ہے، اور اس کے بعد اس کی نیکیوں اور بدیوں کا حساب یہ رہتا ہے کہ ایک نیکی پر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ثواب ملتا ہے، اور بدی کرنے پر وہ اسی ایک بدی کی سزا کا مستحق ہوتا ہے، الا یہ کہ اللہ اسے معاف فرمادے۔
حدیث واضح کررہی ہے کہ دین اسلام اپنانے اور کمال وجمالِ اسلام سے آراستہ ہونے سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ، اور ایک نیکی کا ثواب دس گنے سے سات سو گنے تک ملتا ہے۔ شارح حدیث حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے بقول اسلام کے بہتر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قلب وقالب، ظاہر وباطن، اندرون وبیرون، عیاں ونہاں سب اطاعت الٰہی اور اخلاص سے مزین ہوجائے، اور عمل کے وقت قرب ربانی ملحوظ رہے اور یہ استحضار بھی رہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر عمل سے باخبر ہے۔
دوسری حدیث حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی ہے، ان کا بیان ہے کہ:
لَمَّا جَعَلَ اللّٰہُ الإِسْلاَمَ فِیْ قَلْبِیْ، أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: أُبْسُطْ یَمِیْنَکَ فَلأُبَایِعَکَ، فَبَسَطَ یَمِیْنَہٗ فَقَبَضْتُ یَدَیَّ، فَقَالَ: مَا لَکَ یَا عَمَرُو! قُلْتُ: أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ: تَشْتَرِطُ مَاذَا؟ قُلْتُ: أَنْ یُّغْفَرَ لِیْ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ یَا عَمَرُو أَنَّ الإِسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ، وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا، وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ۔ (صحیح مسلم)
ترجمہ: جب اللہ نے میرے دل میں مشرف باسلام ہونے کا خیال