اور وقتاً فوقتاً اضافوں کے بعد دین اس قدر دشوار، اورطویل ہو جاتا ہے کہ لوگ مجبور ہو کر ایسے مذہب کا قلاوہ اپنی گردن سے اتار دیتے ہیں، اور " مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ" ( خدا نے تمہارے لئے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی) کی نعمت سلب کر لی جاتی ہے، اس کا نمونہ عبادات و رسوم، اور فرائض و واجبات کی اس طویل فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں بدعت کو آزادی کے ساتھ اپنا عمل کرنے کا موقعہ ملا ہے۔
دین و شریعت کی ایک خصوصیت ان کی عالمگیر یکسانی ہے، وہ ہر زمانہ، اور ہر دور میں ایک ہی رہتے ہیں، دنیا کے کسی حصہ کا کوئی مسلمان باشندہ دنیا کے کسی دوسرے حصہ میں چلا جائے تو اس کو دین و شریعت پر عمل کرنے میں نہ کوئی دقّت پیش آئیگی، نہ کسی مقامی ہدایت نامہ اور رہبر کی ضرورت ہو گی، اس کے برخلاف بدعات میں یکسانی اور وحدت نہیں پائی جاتی، وہ ہر جگہ کے مقامی سانچہ ، اور ملکی یا شہری ٹکسال سے ڈھل کر نکلتی ہیں، وہ تاریخی یا مقامی اسباب، اور شخصی و انفرادی مصالح و اغراض کا نتیجہ ہوتی ہیں، اس لئے ہر ملک بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بعض اوقات ایک ایک صوبہ اور ایک ایک شہر اور گھر گھر کا دین مختلف ہو سکتا ہے۔
انھیں ابدی اور عالمی مصالح کی بنیاد پر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو بدعت سے بچنے اور سنت کی حفاظت کی تاکید بلیغ فرمائ، آپ نے فرمایا :۔
من أحدث فی أمرنا ھذا مالیس منہ فھو رد ۔۱
جو ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں داخل نہیں تھی تو وہ بات مسترد ہے۔
------------------------------
۱ متفق علیہ ۔