کی دعوت، ہر زمانہ اور ہر ماحول میں انبیائے کرام علیہم السلام کی پہلی دعوت اور ان کی بعثت کا اولین اور اہم ترین مقصد رہا ہے، ہمیشہ ان کی تعلیم یہی رہی ہے کہ اللّٰہ ہی نفع و نقصان پہونچانے کی طاقت رکھتا ہے، اور صرف وہی عبادت، دعاء، توجہ اور قربانی کا مستحق ہے، انھوں نے ہر دور میں اپنے زمانہ میں جاری و ساری و ثنیت پر ضرب کاری لگائی، جو مورتیوں مقدس و صالح، زندہ و مردہ شخصیتوں کی پرستش کی صورت میں جلوہ گر تھی، ان ہستیوں کے بارے میں اہل جاہلیت کا اعتقاد تھا، کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انھیں عزت و عظمت، اور معبودیت کے خلعت سے سرفراز فرمایا ہے، ان کو خاص خاص امور میں تصرف کا اختیار بھی دے رکھا ہے، اور انسانوں کے بارے میں ان کی سفارشوں کو علی الاطلاق قبول فرماتا ہے، جیسے شہنشاہ اعظم ہر علاقہ کے لئے ایک حاکم بھیج دیتا ہے، اور بعض بڑے اور اہم امور کے علاوہ علاقہ کے انتظام کی ساری ذمہ داری انھیں کے سر ڈال دیتا ہے، اس لئے انھیں کی طرف رجوع، اور انھیں کو راضی کرنا مفید اور ضروری ہے۔
جس شخص کو قرآن سے کچھ بھی تعلق ہے ( جو پچھلی تمام کتابوں کی تعلیمات کا جامع ہے) اس کو یقینی اور بدیہی طور پر یہ بات معلوم ہوگی کہ شرک و بت پرستی کے خلاف صف آرائی اس سے جنگ کرنا، اس کو دنیا سے نیست و بابود کرنے کی کوشش کرنا، اور لوگوں کو اس کے چنگل سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانا، نبوت کا بنیادی مقصد تھا، انبیاء کی بعثت کی اصل غرض، ان کی دعوت کی اساس، ان کے اعمال کا منتہا، اور ان کی جدو جہد کی غایتِ اصلی یہی تھی، یہی ان کی دعوتی سرگرمیوں کا محور و مرکزی نقطہ تھا، قرآن کبھی تو ان کے بارے میں اجمالاً کہتا ہے :۔
وَمَۤااَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ
اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ان کی طرف