اور ہمہ گیر قسم کی کتاب کی ضرورت محسوس ہوئی، جو عبادات و معاملات اور اخلاق و عادات کے باب میں مسلمانوں کے لئے دستور العمل اور گائیڈ بک کی حیثیت رکھتی ہو، یہ ایک ایسی انسانی ضرورت اور فطری تقاضہ تھا، جس سےکوئی دور خالی، اور مسلمانوں کی کوئی نسل اورملک اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا، عہد نبویﷺ میں بھی جو سرتاپا خیر و برکت، اور عالی ہمتی کا زمانہ تھا، اس کی مثالیں ملتی ہیں، حدیث میں آتا ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا:۔
إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ کَثُرَتْ عَلَيَّ فَأَنْبِئْنِي مِنْهَا بِشَيْئٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ
یا رسول اللہﷺ اسلام کے تفصیلی احکام بہت ہوگئے ہیں، جو مجھ جیسے (عامی آدمی) کے قابو میں نہیں آتے، کوئی ایسی (مختصر بات) بتا دیجئے جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں۔
رسول اکرم و مربی اعظم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اعرابی کی بات توجہ سے سنی، بجائے اس کے کہ اس کو ملامت کرتے، اور اس کے اس مطالبہ کو پست ہمتی اور علم دین کی مکمل معلومات حاصل کرنے سے پہلو تہی پر محمول فرماتے، آپ نے پوری شفقت و توجہ سے اس کے اس سوال کا جواب دیا اور فرمایا:۔
لَا يَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِنْ ذِکْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؎1
خدا کے ذکر سے تمہاری زبان ہمیشہ تر رہے۔
حضرت ابو عمرو (یا ابو عمرہ) سفیان ابن عبداللہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ
------------------------------
١؎ ملاحظہ ہو سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب فضل الذکر۔