مس و لمس، مشتبہ ماکولات کے استعمال) سے امکانی حد تک دور رہا جائے، شرعی پردہ، حیا و تستر، طہارت کے انتظامات، پانی کے استعمال کی سہولت، سمت قبلہ کی واقفیت، کپڑوں اور استعمال کی چیزوں کی شرعی نظافت، بچوں کی دینی تعلیم اور بچیوں کی دینی تربیت و تہذیب کا پورے تیقظ کے ساتھ اہتمام ہو کہ اس کے بغیر شرعی و مسنون طریقہ پر زندگی گزارنا تو الگ رہا، دینی فرائض کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے۔ مزید برآں کسی قوم کو اس کے مخصوص تہذیب و تمدن سے الگ کر دینا جو اس کے دین و شریعت کے سایہ میں پروان چڑھا ہے، اور مخصوص دینی ماحول میں اس کا نشو و نما ہوا ہے، اسے کارزار حیات سے الگ اور عقیدہ و عبادت اور دینی رسوم تک محدود کر دینے اور اس کے حال کو اس کے ماضی سے کاٹ دینے کے مرادف ہے، اس طرح وہ تدریجی طور پر اپنے بنیادی عقائد اور مسلک حیات سے بھی الگ ہو جاتی ہے، ذہنی و تہذیبی ارتداد کے راستہ پر پڑ جاتی ہے، اس میں وہی معاشرتی انارکی، خاندانی شیرازہ کی پراگندگی اور اخلاقی جذام رونما ہوتا ہے، مے نوشی اور مسکرات کا آزادانہ استعمال شروع ہو جاتا ہے، جو مغرب میں اپنے شباب پر ہے، جس کا مشاہدہ آنکھ بند کر کے مغرب کی تقلید کرنے والے متعدد اسلامی ملکوں میں بھی ہو رہا ہے۔ (۱)
------------------------------
۱۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مصنف کا تقاریر کا مجموعہ "اھمیۃ الحضارۃ فی تاریخ الدیانات و حیاۃ اصحابھا" نیز مصنف کی کتاب "مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کشمکش" کا باب "عالم اسلام کا مستقل مجتہدانہ کردار" اور اس کا عنوان "ممالک اسلامیہ میں تمدن کی اہمیت"۔