اور بے شک اللہ تعالٰے اپنے رحم دل بندوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔" ۱؎
جب بدریوں کے قیدیوں کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی مشکیں کسی گئیں، اور رسول اللہ__ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم__ نے ان کی کراہ سنی تو آپ کو نیند نہیں آئی، جب انصار کو یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے ان کی مشکیں کھول دیں، اور یہ خواہش کی کہ ان کا فدیہ بھی چھوڑ دیا جائے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو قبول نہ فرمایا۔
مسلمانوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے حد شفیق اور مہربان تھے، اور ان کے احوال کی بہت رعایت فرماتے تھے، انسانی طبائع میں جو اکتاہٹ اور وقتی طور پر پست ہمتی یاتعظُّل پیدا ہوتا رہتا ہے، اس کا برابر لحاظ رکھتے تھے، اسی لئے وعظ و نصحیت وقفوں کے ساتھ فرماتے تھے کہ کہیں اکتاہٹ نہ پیدا ہونے لگے، اگر کسی بچہ کا رون سن لیتے تو نماز مختصر فرما دیتے، اور یہ فرماتے: " میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ طویل نماز پڑھوں کہ کسی بچہ کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس خیال سے نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کو دشواری و تکلیف نہ ہو۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، تم میں سے کوئی شخص مجھ سے کسی دوسرے کہ شکایت نہ کرے، اس لئے کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے سامنے اس حالت میں آوں کہ میرا دل بالکل صاف ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے حق میں شفیق باپ کی طرح تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، جس نے ترکہ میں مال چھوڑا وہ اس کے وارثوں کا ہے، کچھ قرض وغیرہ باقی ہے، تو وہ ہمارے ذمہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم افراط و تفریط سے پاک تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ
------------------------------
۱؎ بخاری شریف، کتاب المرضیٰ باب عیادۃ الصبیان، نیز کتاب الجنائر باب قول النبی__ صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم__"یعذب المیّت ببکاء اہلہ"