سوچ میں رہتے، اس کا ایک تسلسل قائم تھا کہ کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چین نہیں ہوتا تھا، اکثر طویل سکوت اختیار فرماتے، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے، گفتگو کا آغاز فرماتے تو دہن مبارک سے اچھی طرح الفاظ ادا فرماتے (۱) اور اسی طرح اختتام فرماتے، آپ کی گفتگو اور بیان بہت صاف، واضح اور دوٹوک ہوتا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی، نہ زیادہ اختصار، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نرم مزاج و نرم گفتار تھے، درشت خو اور بے مروت نہ تھے، نہ کسی کی اہانت کرتے تھے، اور نہ اپنے لئے اہانت پسند کرتے تھے(۲)۔ نعمت کی بڑی قدر کرتے اور اس کو بہت زیادہ جانتے خواہ کتنی ہی قلیل ہو (کہ آسانی سے نظر بھی نہ آئے) اور اس کی برائی نہ فرماتے، کھانے پینے کی چیزوں کی برائی کرتے نہ تعریف، دنیا اور دنیا سے متعلق جو بھی چیز ہوتی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی غصہ نہ آتا، لیکن جب خدا کے کسی حق کو پامال کیا جاتا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جلال کے سامنے کوئی چیز ٹھہر نہ سکتی تھی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا بدلہ لے لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی ذات کے لئے غصہ نہ آتا، نہ اس کے لئے انتقام لیتے، جب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے، جب کسی امر پر تعجب فرماتے تو اس کو پلٹ دیتے، گفتگو کرتے وقت داہنے ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے ملاتے، غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی تو روئے انور اس طرف سے بالکل پھیر لیتے
------------------------------
۱۔ یعنی متکبروں کی طرح بے توجہی و بے نیازی کے ساتھ ادھ کٹے الفاظ استعمال نہ فرماتے۔
۲۔ یہاں "المہین" کا لفظ آیا ہے، جو "میم" پر ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر "مہین" مراد سے لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کسی کی اہانت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ فرماتے تھے، اور اگر "مہین" ہو تو اس سے مراد یہ ہوگی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ذلت و پستی پسند نہ فرماتے تھے، مطلب یہ ہے کہ نہ درشت خو تھے، نہ کمزور طبیعت کے مالک تھے کہ ہر چیز گوارا فرما لیتے، بلکہ ہیبت و رعب اور جلال و وقار کے مختلف پہلوؤں کے جامع تھے۔