ہوتے جتنا لینے والا لے کر نہ ہوتا تھا، آپ جودو سخا میں فرد تھے، آپ کا ہاتھ صدقات کی باد بہاری تھا، اگر کوئی محتاج و ضرورت مند آ جاتا تو اپنے اوپر اس کو ترجیح دیتے، اور ایثار سے کام لے کر کبھی کھانا، کبھی کپڑا عنایت فرما دیتے، آپ کے دینے کے انداز اور وجوہ بھی مختلف ہوتے تھے، کبھی ہبہ کر دیتے، کبھی صدقہ کر دیتے، کبھی ہدیہ کے نام سے مرحمت فرماتے، کبھی کسی سے کوئی چیز خریدتے، پھر اس کو اس کا سامان اور قیمت دونوں ہی عنایت فرما دیتے، جیسا آپؐ نے حضرت جابر رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کیا، کبھی کسی سے قرض لیتے اور جب قرض واپس کرتے تو اصل سے زائد اور بہتر دیتے، کبھی کوئی چیز خریدتے اور اصل قیمت سے زائد مرحمت فرماتے، ہدیہ قبول فرماتے، پھر اس سے بہتر یا کئی گنا زائد ہدیہ دیتے، غرض کہ ہر ممکن طریقہ سے صدقات و خیرات اور نیکی و صلہ رحمی کے نئے نئے طریقے، اور نرالے انداز پیدا فرما لیتے۱، صلے اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم"۔
زکوٰۃ کے بارے میں بھی، مقدار، نصاب اور کس پر واجب ہوتی ہے؟ اور اس کے کیا مصارف ہیں، ہر اعتبار و لحاظ سے آپؐ کی لائی ہوئی شریعت، اور آپؐ کا طریقہ بڑا کامل و مکمل اور جامع ہے، آپؐ نے اس میں اہل ثروت کا بھی خیال فرمایا، اور مسکینوں اور محتاجوں کی مصلحت کا بھی، اللّٰہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو مال اور صاحبِ مال کے لئے پاکیزگی کا سبب اور اہل ثروت اور اغنیاء پر انعامات کا ذریعہ بنایا ہے۲۔
آپؐ کا طریقہ و معمول یہ تھا، کہ جس علاقہ کے اغنیاء سے زکوٰۃ لیتے اسی علاقہ کے فقراء اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے، اگر وہ ان کی ضرورت سے زائد ہوتی تو آپؐ کی
------------------------------
۱ زادالمعاد-ج ۶۵۱ ۲ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے" خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ؕ"(سورۂ براءۃ۔۱۰۳)